Home ≫ ur ≫ Surah Al Hijr ≫ ayat 84 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ(80)وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ(81)وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(82)فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَ(83)فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَﭤ(84)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ:اور بیشک حجر والو ں نے جھٹلایا۔} حِجْرمدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک وادی ہے جس میں قومِ ثمود رہتے تھے ، انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور ایک رسول عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب ہے کیونکہ ہر رسول تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو جس نے کسی ایک رسول عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا تو گویا کہ اس نے تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۵۸۶)
نوٹ: قومِ ثمود کے واقعات تفصیل کے ساتھ سورۂ اَعراف اور سورۂ ہود میں گزر چکے ہیں ۔
{وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا:اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں ۔} یعنی ہم نے قومِ ثمود کو اپنی نشانیاں دیں کہ پتھر سے اونٹنی پیدا کی جو بہت سے عجائبات پر مشتمل تھی مثلاً اس کا جسم بڑا ہونا، پیدا ہوتے ہی بچہ جننا اور کثرت سے دودھ دینا کہ پوری قومِ ثمود کو کافی ہو وغیرہ ، یہ سب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات اور قومِ ثمود کے لئے ہماری نشانیاں تھیں تو وہ ان نشانیوں سے اِعراض کرتے رہے اور ایمان نہ لائے ۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۱، ۷ / ۱۵۷، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۵۸۶، ملتقطاً)
{وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ:اور وہ تراشتے تھے ۔} یعنی وہ لوگ بے خوف ہو کرپہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے تھے کیونکہ انہیں اس کے گرنے اور اس میں نقب لگائے جانے کا اندیشہ نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ گھر تباہ نہیں ہوسکتے ،ان پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔(مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۵۸۶)
{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ:تو انہیں زور دار چیخ نے پکڑ لیا ۔} جب قومِ ثمود نے اونٹنی کی کونچیں کاٹیں تو حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بتائے ہوئے تین دن گزرنے کے بعد صبح ہوتے ہی قومِ ثمود کو آسمان سے ایک زور دار چیخ سنائی دی اور زمین میں زلزلہ ا ٓگیا، یوں ان سب کو ہلاک کر دیا گیا۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۰۵۰، ملخصاً)
{فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ:تو ان کے کچھ کام نہ آئی۔} یعنی وہ لوگ شرک اور جو برے کام کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آئے اور اُن کے مال و متا ع اور اُن کے مضبوط مکان انہیں عذاب سے نہ بچاسکے۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۰۷، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۲۱۴، ملتقطاً)
عذاب کی جگہ پر روتے ہوئے داخل ہونا:
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں کے آثار عرب کی سر زمین میں آج بھی موجود ہیں اور وہاں وہ جگہ ’’مداینِ صالح‘‘ کے نام سے معروف ہے ،آج بھی لوگ ان آثارکو دیکھنے جاتے ہیں ، بطورِ خاص ان کی ترغیب کے لئے اور عمومی طور پر سب مسلمانوں کی ترغیب کے لئے یہاں ایک حدیث پاک ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب مقامِ حِجر کے پاس سے گزرے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ظالموں کے مکانات میں روتے ہوئے داخل ہو نا، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہ عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر سوار ی پر بیٹھے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چہرۂ انور پر چادر ڈال لی۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: والی ثمود اخاہم صالحاً، ۲ / ۴۳۲، الحدیث: ۳۳۸۰)