banner image

Home ur Surah Al Hijr ayat 85 Translation Tafsir

اَلْحِجْر

Al Hijr

HR Background

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(85)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہ بنایا اور بیشک قیامت آنے والی ہے تو تم اچھی طرح درگزر کرو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب حق کے ساتھ بنایا اور بیشک قیامت آنے والی ہے تو تم اچھی طرح درگزر کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِلَّا بِالْحَقِّ:مگر حق کے ساتھ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو اللّٰہ تعالیٰ نے بامقصد اور حکمت سے بھرپور بنایا ہے اور بیشک قیامت آنے والی ہے ،اس میں  ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا ضرور ملے گی تو اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم سے اچھی طرح درگزر کریں  اور اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  پر صبر و تحمل کریں  اور ان کی خطاؤں  سے درگزر کریں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حکم آیتِ قتال سے مَنسوخ ہوگیا اور دوسرا قول یہ ہے کہ منسوخ نہیں  ہوا۔ (جلالین مع صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۱۰۵۰، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۱۰۸، ملقتطاً)

 اَذِیَّتیں  پہنچانے والوں  کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سلوک:

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں  سے متعلق حضرت انس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جتنا ڈرایا گیا ہوں  اتنا کوئی نہیں  ڈرایا گیا اور میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں  جتنا ستایا گیا ہوں اتنا کوئی نہیں  ستایا گیا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۴-باب، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۲۴۸۰)اوران کی اذیتوں  کے مقابلے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق، بردباری اور عفو و درگزر کا عظیم مظاہرہ ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ علامہ عبد المصطفٰیٰ اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اُس (خطاب )کے بعد ( جو آپ نے فتحِ مکہ کے موقع پر مسلمانوں  اور کفار کے مجمع سے فرمایا تھا) شہنشاہِ کونین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس ہزاروں  کے مجمع میں  ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں  نیچی کئے ہوئے لرزاں  و ترساں  اشرافِ قریش کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان ظالموں  اور جفاکاروں میں  وہ لوگ بھی تھے جنہوں  نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے راستوں  میں  کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر پتھروں  کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں  نے بار بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں  نے آپ کے دندانِ مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں  اورشرمناک گالیوں  سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے گلے میں  چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں  نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خونِ نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں  بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں  اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے درو دیوار دہل چکے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں  پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں  موجود تھے وہ ستم گار جنہوں  نے شمعِ نبوت کے جاں  نثار پروانوں  حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں  سے باندھ باندھ کر، کوڑے مار مار کرجلتی ہوئی ریتوں  پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں  پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں  میں  لپیٹ لپیٹ کر ناکوں  میں  دھوئیں  دیئے تھے، سینکڑوں  بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم و عُدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں  اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں  مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں  میں  یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں  کو کتوں  سے نچوا کر ہماری بوٹیاں  چیلوں  اور کوؤں  کو کھلا دی جائیں  گی اور انصارو مہاجرین کی غضب ناک فوجیں  ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں  ملاکر ہماری نسلوں  کو نیست و نابود کر ڈالیں  گی اور ہماری بستیوں  کو تاخت و تاراج کرکے تہس نہس کر ڈالیں  گی، ان مجرموں  کے سینوں  میں  خوف وہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں  کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں  آگئے تھے اور عالَمِ یاس میں  انہیں  زمین سے آسمان تک دھوئیں  ہی دھوئیں  کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اورناامیدی کی خطرناک فضا میں  ایک دم شہنشاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نگاہِ رحمت ان پاپیوں  کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں  سے آپ نے پوچھا کہ’’بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں  تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟‘‘ اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبینِ رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں  لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں ۔‘‘ سب کی للچائی ہوئی نظریں  جمالِ نبوت کا منہ تک رہی تھیں  اور سب کے کان شہنشاہ ِنبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں  ارشاد فرمایا کہ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ‘‘آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔

بالکل غیرمتوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمانِ رسالت سن کر سب مجرموں  کی آنکھیں  فرطِ ندامت سے اشکبار ہوگئیں  اور ان کے دلوں  کی گہرائیوں  سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں  کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں  پر لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے نعروں  سے حرمِ کعبہ کے درودیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں  بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں  ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ

جہاں  تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا

کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں  اجالا تھا

            کفار نے مہاجرین کی جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں  پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں  اور سامانوں  کو مکہ کے غاصبوں  کے قبضوں  سے واگزار کرکے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہِ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں  خوشی خوشی مکہ والوں  کو ہبہ کردیں ۔

            اللّٰہ اکبر! اے اقوامِ عالم کی تاریخی داستانو! بتاؤ کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتابِ زندگی میں  کوئی ایسا حسین و زریں  ورق ہے؟ اے دھرتی! خدا کے لئے بتا، اے آسمان! لِلّٰہِ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے جس نے اپنے دشمنوں  کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک کیا ہو؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو! کیا تم نے لاکھوں  برس کی گردشِ لیل و نہار میں  کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہانِ عالَم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں  کہ شاہانِ عالَم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں  کہ

چشمِ  اقوام  یہ  نظارہ  ابد  تک  دیکھے

رفعتِ  شانِ  رَفَعْنَا  لَکَ  ذِکْرَکَ  دیکھے

(سیرت مصطفٰی، تیرہواں  باب، ہجرت کا آٹھواں  سال، ص۴۳۸-۴۴۲)