Home ≫ ur ≫ Surah Al Hujurat ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(1)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت کے بغیرکسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنارسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
اس آیت کے شان نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ،ان میں سے دو رِوایات درجِ ذیل ہیں،
(1)…چند لوگوں نے عیدُالاضحی کے دِن سر کارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں ۔
(2)… حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے آگے نہ بڑھو۔ (خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۶۳-۱۶۴، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۲۶، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۱۴۹-۱۱۵۰، ملتقطاً)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:(اس آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور عَلَیْہِ السَّلَام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز،اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص۲۲۴)
آیت ’’لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ سے متعلق5باتیں :
یہاں اس آیت سے متعلق5باتیں ملاحظہ ہوں
(1)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائے ہیں ۔
(2)…اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ سے آگے ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمانہ میں ہوتا ہے یا جگہ میں، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آگے نہ بڑھو،ان کی بے ادبی دراصل اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص۲۲۴-۲۲۵، ملخصاً)
(3)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت کی بنا پر آپ سے اجازت لے کر آگے بڑھنا اس ممانعت میں داخل نہیں ہے ،لہٰذا اَحادیث میں جو بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آگے آگے چلنا مذکور ہے وہ اس آیت میں داخل نہیں کیونکہ ان کا چلنا خادم کی حیثیت سے تھا، یونہی حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا امامت کروانابھی اس میں داخل نہیں کیونکہ آپ کا یہ عمل حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت سے تھا۔
(4)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :علماءِ کرام چونکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں اس لئے ان سے آگے بڑھنا بھی اس ممانعت میں داخل ہے اور اس کی دلیل حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی وہ روایت ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا’’اے ابو دردائ!کیا تم اس کے آگے چلتے ہو جو تم سے بلکہ ساری دنیا سے افضل ہے ۔( روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۶۲)
یا درہے کہ یہ ادب ان علماءِ کرام کے لئے ہے جو اہلِ حق اور با عمل ہیں کیونکہ یہی علماء در حقیقت انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں جبکہ بد مذہبوں کے علماء اور بے عمل عالِم اس ادب کے مستحق نہیں ہیں ۔
(5)… بعض ادب والے لوگ بزرگوں یا قرآن شریف کی طرف پیٹھ نہیں کرتے، ان کے اس عمل کا ماخَذ یہ آیت ہے۔