Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 192 ≫ Translation ≫ Tafsir
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(192)رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(193)رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(194)
تفسیر: صراط الجنان
{رَبَّنَا : اے ہمارے رب۔}رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاسے لے کر اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ تک بہت پیاری دعا ہے۔ اسے اپنے معمولات میں شامل کرلینا چاہیے۔
{رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو سنا۔ }اس منادی سے مراد سید الانبیاء، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جن کی شان میں ’’دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ‘‘ وارد ہوا ہے یا اس سے قرآنِ کریم مراد ہے۔
{وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ:اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔} یہاں اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ موت بھی نیک لوگوں کے ساتھ ہو یعنی ان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موت آئے اور ان کی مَعِیَّت نصیب ہوجائے۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب:
یاد رہے کہ نیک لوگوں کی صحبت بہت عظیم چیز ہے۔ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا:
كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (توبہ:۱۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو صحبت نے ہی عظیم ترین مرتبے پر فائز کیا۔زندگی میں نیک لوگوں کا ساتھ تو نعمت ہے ہی، مرنے کے بعد بھی نیکوں کا ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ پسندیدہ بندے کو موت کے وقت فرمایا جاتا ہے :
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(فجر: ۲۷-۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجااور میری جنت میں داخل ہوجا۔
دیکھیں ، فوت ہونے والی روح سے کہا جاتا ہے کہ میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئےکہ وہ اپنی زندگی میں نیک لوگوں کے ساتھ رہے اور انہی کے گروہ میں موت ملنے کی دعا کرے تاکہ ان کے صدقے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں سے فیضیاب ہواور موت کے بعد نیک لوگوں کے قرب میں دفن ہونے کی وصیت کرے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اپنے مردوں کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرو کیونکہ میت برے پڑوسی سے اسی طرح اَذِیَّت پاتی ہے جس طرح زندہ انسان برے پڑوسی سے اذیت پاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الموت، قسم الاقوال، الفصل السادس، ۸ / ۲۵۴، الجزء الخامس عشر،الحدیث: ۴۲۳۶۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے حضرت میاں صاحب قبلہ قُدِّسَ سِرُّہٗ کو فرماتے سنا : ایک جگہ کوئی قبر کھل گئی اور مردہ نظر آنے لگا ۔ دیکھا کہ گلاب کی دو شاخیں اس کے بد ن سے لپٹی ہیں اور گلاب کے دو پھول اس کے نتھنو ں پر رکھے ہیں۔ اس کے عزیزوں نے اِس خیال سے کہ یہاں قبر پانی کے صدمہ سے کھل گئی، دو سری جگہ قبر کھود کر اس میں رکھیں ، اب جو دیکھیں تو دو اژدہے اس کے بدن سے لپٹے اپنے پھَنوں سے اس کا منہ بھَموڑ رہے ہیں ، حیران ہوئے ۔ کسی صاحبِ دل سے یہ واقعہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا: وہاں بھی یہ اژدہا ہی تھے مگر ایک ولیُّ اللہ کے مزار کا قرب تھا اس کی برکت سے وہ عذاب رحمت ہوگیا تھا، وہ اژدھے درخت ِگُل کی شکل ہوگئے تھے اوران کے پھَن گلاب کے پھول۔ اِس کی خیریت چاہو تو وہیں لے جاکر دفن کرو۔ وہیں لے جاکر رکھا پھروہی درختِ گل تھے اور وہی گلاب کے پھول۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، حصہ دوم، ص۲۷۰)