banner image

Home ur Surah Al Insan ayat 27 Translation Tafsir

اَلدَّهْر (اَلْاِنْسَان)

Al Insan

HR Background

اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا(27)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک یہ لوگ پاؤں تلے کی عزیز رکھتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک یہ لوگ جلد جانے والی سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ: بیشک یہ لوگ جلد جانے والی سے محبت کرتے ہیں ۔} رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُخاطَب ہونے کے بعد اب اللّٰہ تعالیٰ کفّار کے حالات بیان فرما رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ان کفارِ مکہ کا حال یہ ہے کہ وہ جلد جانے والی دنیا کی محبت میں  گرفتار ہیں  اورا سے آخرت پر ترجیح دیتے ہیں  اور اپنے آگے قیامت کے اس دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں  جس کی شدّتیں  اور سختیاں  کفار پر بھاری ہوں  گی،یہ لوگ نہ اس دن پر ایمان لاتے ہیں  اور نہ اس دن کے لئے عمل کرتے ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)

دنیا سے محبت کب بری اور کب اچھی ہے؟

             اس سے معلوم ہوا کہ جب دین کو چھوڑ کر دنیا سے محبت کی جائے تو یہ بُری ہے اورکفار کا طریقہ ہے اور اگر دنیا کو دین کے لئے وسیلہ بنایاجائے تو اس سے محبت اچھی ہے۔ہمارے اَسلاف کا حال یہ تھا کہ وہ دنیا کا مال ملنے پر خوش ہونے کی بجائے غمزدہ ہو جایا کرتے تھے اور دین کی خاطر دنیا کا مال حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ،جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روزے سے تھے، جب (افطار کے وقت) ان کے سامنے کھانا لایا گیا تو فرمایا’’ حضرت مُصْعَب بن عُمَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  شہید کئے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے،انہیں  ایک چادر کا کفن دیا گیا، اگر ان کے سر کو چھپایا جاتا تو قدم کھل جاتے تھے اور قدموں  کو چھپایا جاتا تو سرکھل جاتا تھا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کئے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔پھر ہمارے لئے دنیا خوب کشادہ کر دی گئی اور ہمیں  دنیا کا مال عطا فرما دیا گیا، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ کہیں  یہ ہماری نیکیوں  کا جلد بدلہ نہ مل رہا ہو،پھر رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا لم یوجد الّا ثوب واحد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۲۷۵)

            اورحضرت حماد بن زید رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کپڑے کی تجارت کیاکرتے تھے،ایک مرتبہ انہوں  نے فرمایا کہ اگر پانچ افراد نہ ہوتے تو میں  تجارت نہ کرتا۔کسی نے ان سے کہا :اے ابو محمد! وہ پانچ افراد کون ہیں ؟انہوں  نے فرمایا(1)حضرت سفیان ثوری۔(2) حضرت سفیان بن عُیَینہ۔ (3)حضرت فضیل بن عیاض۔(4)حضرت محمد بن سماک۔ اور(5)حضرت ابن عُلَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خراسان شہر تک تجارت کے لئے جاتے اور تجارت سے جو نفع ہوتا اس میں  سے اپنے اہلِ خانہ کا اور حج کا خرچ نکال کر باقی جو کچھ بچتا وہ ان پانچ حضرات کی خدمت میں  پیش کر دیتے تھے۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ اسماعیل، ۳۲۷۷-اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۳۴)