Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 87 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَىٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًا(86)اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیْرًا(87)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ شِئْنَا: اور اگر ہم چاہتے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اس قرآن کو جو کہ شفا ء اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور ان تمام علوم کا جامع ہے جو آپ کو عطا کئے گئے، اِسے سینوں اور صحیفوں سے مَحو فرما دیتے، پھر آپ کوئی وکیل نہ پاتے جو ہماری بارگاہ میں آپ کے لئے ا س قرآن کو لوٹا دینے کی وکالت کرتا لیکن آپ کے رب کی رحمت ہی ہے کہ اس نے قیامت تک اسے باقی رکھا اور ہر طرح کی کمی بیشی اور تبدیلی سے محفوظ فرما دیا۔ اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کا احسان در احسان ہے کہ اس نے پہلے قرآن نازل فرما کر احسانِ عظیم فرمایا اور پھر اسے محفوظ فرما کر اور قیامت تک باقی رکھ کر احسان فرمایا۔ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک تمہارے او پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا فضل ہے کہ اُس نے آپ پر قرآن کریم نازل فرمایا ، آپ کو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتَم النَّبِیّین کیا اور مقامِ محمود عطا فرمایا۔( ابوسعود، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۳۵۰، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ص۶۳۵، جلالین مع صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۱۱۵۱-۱۱۵۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید کی تلاوت اور اس کے اَحکام پر عمل کی ترغیب:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کامعنی یہ بیان کیا ہے کہ اے لوگو ! قرآن (کے احکام) پر پابندی سے عمل کرو اور اس میں کمی کرنا چھوڑ دو کیونکہ ہم اسے تمہارے سینوں اور صحیفوں سے لے جانے پر قادر ہیں لیکن قیامت آنے تک اسے باقی رکھنا ہماری تم پر رحمت ہی ہے اور جب قیامت قریب آئے گی تو ہم اسے سینوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیں گے۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۱۱۵۱-۱۱۵۲)
قرآنِ کریم سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قرآن جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ نہ جائے ۔ عرش کے گرد قرآن کی ایسی بھنبھناہٹ ہو گی جیسی شہد کی مکھی کی ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ قرآن سے فرمائے گا ’’تیرا کیا حال ہے۔ قرآن عرض کرے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ،میں تیرے پاس سے گیا اور تیری ہی طرف لوٹ آیا ہوں ، میری تلاوت تو کی گئی لیکن میرے احکامات پر عمل نہ کیا گیا۔( مسندالفردوس، باب لام الف، ۵ / ۷۹، الحدیث: ۷۵۱۳)
اورحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’بے شک یہ قرآن جو تمہارے سامنے موجود ہے، عنقریب اسے اٹھا لیا جائے گا۔ ایک شخص نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ ہم نے اسے دلوں میں اور صحیفوں میں محفوظ کر رکھا ہے، ہم اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں اور ہمارے بچے اپنی اولاد کو قرآن سکھاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ’’وہ ایک رات میں چلا جائے گا اور صبح کے وقت لوگ اسے نہیں پائیں گے اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ قرآن دلوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیا جائے گا۔( ابو سعود، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۳۵۰)
نیزحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہی فرمایا کہ قرآنِ پاک خوب پڑھو اس سے پہلے کہ قرآن پاک اٹھالیا جائے کیونکہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قرآن پاک نہ اُٹھایا جائے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۵، الحدیث: ۲۰۲۶)اللّٰہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک کی تلاوت کرنے ،اسے سمجھنے اور اس کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا کرے،آمین۔