Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 98 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِهٖؕ-وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّاؕ-مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا(97)ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُـوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا(98)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ:اور جسے اللّٰہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جسے اللّٰہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کردے تو تم ہرگز ان کیلئے اس کے سوا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے اور ہم انہیں قیامت کے دن ان کے منہ کے بل اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ جس طرح دنیا میں حق دیکھنے کی بصیرت نہ رکھتے تھے،حق بات بول نہیں سکتے تھے اور حق بات سننے سے بہرے تھے اسی طرح آخرت میں بھی اس چیز کو دیکھنے سے اندھے ہوں گے جو ان کی نگاہوں کو ٹھنڈا کرے، وہ بات بولنے سے گونگے ہوں گے جو ان کی طرف سے قبول کی جائے اوراس بات کو سننے سے بہرے ہوں گے جو ان کے کانوں کو لذت دے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی (اس کی آگ) بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکادیں گے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۹۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۶۳۷، ملتقطاً)
قیامت کے دن کفار منہ کے بل چلیں گے:
اس آیت میں بیان ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو منہ کے بل اٹھا ئے گا، اس سے متعلق بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافر کو اس کے چہرے کے بل کس طرح اٹھایا جائے گا؟ ارشاد فرمایا ’’وہ رب جس نے اسے دنیا میں دو قدموں پر چلایا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ قیامت کے دن اسے چہرے کے بل چلائے؟ (کیوں نہیں ،وہ اس بات پر ضرور قادر ہے۔)( بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر، ۴ / ۲۵۲، الحدیث: ۶۵۲۳)
اور سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ تین حالتوں میں اٹھائے جائیں گے، بعض لوگ پیدل چلیں گے، بعض سوار اور کچھ لوگ چہروں کے بل چلیں گے۔ عرض کی گئی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، چہروں کے بل کیسے چلیں گے؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے انہیں قدموں پر چلایا وہ انہیں منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے، سن لو !وہ اپنے منہ کے ذریعے ہر بلند جگہ اور کانٹے سے بچیں گے۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسراءیل، ۵ / ۹۶، الحدیث: ۳۱۵۳)
{ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ:یہ ان کی سزا ہے۔} اِس سے پہلی آیت میں جو وعید بیان ہوئی اُس سے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عذاب ان کی سزا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائے گا؟( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۱۹۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۶۳۷، ملتقطاً)