Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 37 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(36)یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(37)
تفسیر: صراط الجنان
{لِیَفْتَدُوْا بِهٖ: تاکہ فدیہ دے کر جان چھڑائیں۔} یعنی اگر کافر دنیا کا مالک ہو اور اس کے ساتھ اس کے برابر دوسری دنیا کا مالک ہو اور یہ سب کچھ اپنی جان کو قیامت کے دن کے عذاب سے چھڑانے کے لئے فدیہ کر دے تو ا س کا یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور قیامت کے دن کافروں کو عذاب ضرور ہو گا، اس دن ان کے پاس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہو گی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۴۹۱)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جب کافر کو پیش کیا جائے گا تو ا س سے کہا جائے گا کہ اگر تیرے پاس اتنا سونا ہو کہ اس سے زمین بھر جائے تو کیا تو اسے اپنے بدلے میں دینے کوتیار ہو جاتا؟ وہ اِثبات میں جواب دے گا تو اس سے کہا جائے گا: تم سے اس کی نسبت بہت ہی آسان چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا (یعنی ایمان کا)۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب من نوقش الحساب عذّب، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۶۵۳۸)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے فرمائے گا جسے جہنم میں سب سے کم عذاب ہو گا کہ اگر تیرے پاس زمین کی ساری چیزیں ہوں تو کیا تو انہیں اپنے بدلے میں دے دیتا۔ وہ جواب دے گا :جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں نے اس سے بھی آسان چیز تجھ سے چاہی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا تو تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شرک کرتا رہا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۱، الحدیث: ۶۵۵۷)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ہوگا تو ہی قیامت کے دن اعمال کا اجر ملے گا، تبھی شفاعت کا فائدہ ہوگا، تبھی رحمت ِ الہٰی متوجہ ہوگی اور تبھی جہنم سے چھٹکارا ملے گا، اس لئے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین نیک اعمال کی کثرت کے باوجود ہمیشہ برے خاتمے سے ڈرتے رہتے تھے ،چنانچہ :
جب حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ بے حد بے قرار اور مُضْطَرب ہوئے اور زار وقطار رونے لگے۔ لوگوں نے عرض کی :حضور! ایسی گریہ و زاری نہ کریں ، اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مغفرت آپ کے گناہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب دیا:مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ میرا خاتمہ بالخیر ہوگا، اگر یہ پتا چل جائے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو گا تو مجھے پہاڑوں کے برابر گناہوں کی بھی پرواہ نہ ہو گی۔
حضرت امام حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا گیا: آپ کا کیا حال ہے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جس شخص کی کشتی دریا کے درمیان جا کر ٹوٹ جائے ،اس کے تختے بکھر جائیں اور ہر شخص ہچکولے کھاتے تختوں پر نظر آئے تو اس کاکیا حال ہو گا؟ عرض کی گئی: بے حد پریشان کُن۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میرا بھی یہی حال ہے۔
ایک بار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی سال تک ہنسی نہ آئی۔ لوگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایسے دیکھتے جیسے کوئی قید ِتنہائی میں ہے اور اسے سزائے موت سنائی جانے والی ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس غم و حزن کاسبب دریافت کیاگیا کہ آپ اتنی عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے باوجود فکرمند کیوں رہتے ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’مجھے ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جائے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے اور وہ فرما دے کہ ’’تم جو چاہے کرو مگر میری رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو گی۔ بس اسی وجہ سے میں اپنی جان پگھلا رہا ہوں(کیمیاء سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل سیم در خوف ورجا، ۲ / ۸۲۵-۸۳۲)۔([1])
ایمان پہ موت بہتر او نفس
تیری ناپاک زندگی سے
[1] …ایمان کی حفاظت کا جذبہ پانے کے لئے امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔