banner image

Home ur Surah Al Mudassir ayat 26 Translation Tafsir

اَلْمُدَّثِّر

Al Mudassir

HR Background

اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ(18)فَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ(19)ثُمَّ قُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ(20)ثُمَّ نَظَرَ(21)ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ(22)ثُمَّ اَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَ(23)فَقَالَ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ(24)اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِﭤ(25)سَاُصْلِیْهِ سَقَرَ(26)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک وہ سوچا اور دل میں کچھ بات ٹھہرائی ۔ تو اس پر لعنت ہو کیسی ٹھہرائی۔ پھر اس پر لعنت ہو کیسی ٹھہرائی۔ پھر نظر اٹھا کر دیکھا ۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔ پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔ پھر بولا یہ تو وہی جادو ہے اگلوں سے سیکھا۔ یہ نہیں مگر آدمی کا کلام ۔ کوئی دم جاتا ہے کہ میں اسے دوزخ میں دھنساتا ہوں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک اس نے سوچا اور دل میں کوئی بات ٹھہرالی ۔ تو اس پر لعنت ہو ، اس نے کیسی بات ٹھہرائی۔ پھر اس پر لعنت ہو ،اس نے کیسی بات ٹھہرائی ۔ پھر نظر اٹھا کر دیکھا۔ پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔ پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔ پھر بولا: یہ تو وہی جادو ہے جو منقول چلتا آرہا ہے۔ یہ آدمی ہی کا کلام ہے۔ جلد ہی میں اسے دوزخ میں دھنساؤں گا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ: بیشک اس نے سوچا اور دل میں  کوئی بات ٹھہرا لی۔} شانِ نزول: جب یہ آیت ’’ حٰمٓۚ(۱) تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘ نازل ہوئی اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد میں  نماز کے دوران  تلاوت فرمائی تو ولید نے اس آیت کو سنا اور اپنی قوم کی مجلس میں  آکر اُس نے کہا کہ خدا کی قسم !میں  نے محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے ابھی ایک کلام سنا ہے، نہ وہ کلام آدمی کا ہے اور نہ جن کا، خدا کی قسم! اس کلام میں  عجیب شیرینی، تازگی ، فوائد اور دل کَشی ہے،وہ کلام سب پر غالب رہے گا ۔ قریش کو اُس کی اِن باتوں  سے بہت غم ہوا اور ان میں  مشہور ہوگیا کہ ولید اپنے آبائی دین سے مُنْحَرِف ہوگیا ہے۔ابوجہل نے ولید کو سمجھانے کا ذمہ لیااور اس کے پاس آکر بہت غمزدہ صورت بنا کر بیٹھ گیا۔ ولید نے کہا :تمہیں کیا غم ہے؟ ابوجہل نے کہا :غم کیسے نہ ہو، تو بوڑھا ہوگیاہے اور قریش تیرے خرچ کیلئے روپیہ جمع کردیں  گے، اُنہیں  خیال ہے کہ تو نے محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے کلام کی تعریف اس لئے کی ہے کہ تجھے ان کے دستر خوان کا بچا ہوا کھانا مل جائے۔ اس پر اُسے بہت طیش آیا اور کہنے لگا کہ کیا قریش کو میرے مال و دولت کا حال معلوم نہیں  ہے اور کیا محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اَصحاب نے کبھی سیر ہو کر کھانا بھی کھایا ہے جو اُن کے دستر خوان پر کچھ بچے گا۔ پھر وہ ابوجہل کے ساتھ اُٹھا اور قوم میں  آکر کہنے لگا:تمہیں  خیال ہے کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مجنون ہیں  ،کیا تم نے اُن میں  کبھی دیوانگی کی کوئی بات دیکھی؟ سب نے کہا: ہرگز نہیں ۔ولید کہنے لگا :تم انہیں  کاہِن سمجھتے ہو ،کیا تم نے انہیں  کبھی کہانت کرتے دیکھاہے؟ سب نے کہا: ہرگز نہیں ۔ ولید بولا: تم انہیں  شاعر گمان کرتے ہو ،کیا تم نے کبھی انہیں  شعر کہتے ہوئے پایا ہے؟سب نے کہا:ہرگز نہیں : ولید کہنے لگا: تم انہیں  کَذّاب کہتے ہو، کیا تمہارے تجربہ میں  ایسا ہے کہ کبھی اُنہوں  نے جھوٹ بولا ہو؟سب نے کہا: ہرگز نہیں  اور قریش میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچائی اور دیانت ایسی مشہور تھی کہ قریش آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو امین کہا کرتے تھے۔ یہ سن کر قریش نے کہا :ولید!پھر بات کیا ہے؟ تو ولید سوچ کر بولا کہ بات یہ ہے کہ وہ جادو گر ہیں ، تم نے دیکھا ہوگا کہ ان کی بدولت رشتہ دار رشتہ دار سے اورباپ بیٹے سے جدا ہوجاتے ہیں  بس یہی جادو گر کا کام ہے اور جو قرآن وہ پڑھتے ہیں  وہ دل میں  اثر کر جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جادو ہے۔اس سے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ۔

چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 8آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ نے سوچا کہ وہ اُس قرآن کے بارے میں  کیا کہے جو اس نے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا ،چنانچہ اس نے غوروفکر کر کے اپنے دل میں  وہ کلام مُرَتَّب کر لیا جو اس نے قرآن کے بارے میں  کہنا تھا ۔ اب فرمانِ الٰہی ہوتا ہے کہ اس پر لعنت ہو ، اس نے اپنے دل میں  کیسی عجیب بات ٹھہرائی ہے ۔ پھراس پر لعنت ہو ، اس نے اپنے دل میں  کیسی حیرت انگیزبات ٹھہرائی ہے۔پھر اس نے نظر اٹھا کر اپنی قوم کے چہروں  کی طرف دیکھا۔پھر اس نے کسی چیز میں  غور کرنے والے کی طرح تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔پھراس نے ایمان لانے سے پیٹھ پھیری اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کو اپنی بڑائی کے خلاف سمجھا۔پھر قرآنِ مجید کے بارے میں  بولا: یہ تو وہی جادو ہے جو جادوگروں  سے منقول چلتا آرہا ہے اوریہ کسی آدمی ہی کا کلام ہے۔یہ سن لے کہ جلد ہی اللّٰہ تعالیٰ اسے دوزخ میں  دھنسادے گا۔(جلالین، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۶، ص۴۸۰، خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۶، ۴ / ۳۲۹، ملتقطاً)