banner image

Home ur Surah Al Mujadilah ayat 4 Translation Tafsir

اَلْمُجَادَلَة

Al Mujadilah

HR Background

فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّاۚ-فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْكِیْنًاؕ-ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(4)

ترجمہ: کنزالایمان پھر جسے بردہ نہ ملے تو لگاتار دو مہینے کے روزے قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں پھر جس سے روزے بھی نہ ہوسکیں تو ساٹھ مسکینوں کا پیٹ بھرنا یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھر جو شخص(غلام )نہ پائے تو میاں بیوی کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا (شوہر پر لازم ہے) پھر جو(روزے کی) طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ( لازم ہے) یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ: پھر جو شخص (غلام) نہ پائے۔} اس آیت میں  ظہار کے کفارے کی مزید دو صورتیں  بیان کی جا رہی ہیں ، چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پھر جسے غلام نہ ملے تو اس صورت میں  ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ میاں  بیوی کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا شوہر پر لازم ہے ،پھر جو اتنے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں  ساٹھ مسکینوں  کو کھانا کھلانا شوہر پر لازم ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے تا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھو ، ان کی فرمانبرداری کرو اور جاہلیّت کے طریقے چھوڑدو اور یہاں  جو ظہار اور اس کے کفارے کے اَحکام بیان ہوئے یہ اللّٰہ تعالیٰ کی حدیں  ہیں ،ان کو توڑنا اور ان سے تجاوُز کرنا جائز نہیں  اور کافروں  کے لیے قیامت کے دن دردناک عذاب ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۳۷، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۱۷، ملتقطاً)

روزے رکھ کر اور مسکینوں  کو کھاناکھلا کر ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے متعلق 10شرعی مسائل:

            یہاں  آیت میں  کفارے کی بیان کردہ دو صورتوں  سے متعلق10شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،

(1)…روزے سے کفارہ ادا کرنے میں  یہ شرط ہے کہ نہ اِس مدت کے اندر ماہِ رمضان ہو، نہ عید الفطر، نہ عید ِاضحی نہ اَیّامِ تشریق۔ ہاں  اگر مسافر ہے تو ماہِ رمضان میں  کفارہ کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے، مگر وہ اَیّام جن میں  روزہ رکھنا ممنوع ہے، اُن میں  اسے بھی روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ۔

(2)…روزے اگر پہلی تاریخ سے رکھے تو دوسرا مہینہ ختم ہونے پر کفارہ ادا ہوگیا اگرچہ دونوں  مہینے 29دن کے ہوں  جبکہ اگر پہلی تاریخ سے نہ رکھے ہوں  تو ساٹھ پورے رکھنے ہوں  گے اور اگر پندرہ روزے رکھنے کے بعد چاند ہوا پھراس مہینے کے روزے رکھ لیے اور یہ29 دن کا مہینہ ہو، اس کے بعد پندرہ دن اور رکھ لیے کہ59 دن ہوئے جب بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔

(3)…کفارہ کا روزہ توڑدیا خواہ سفر وغیرہ کسی عذر سے توڑا یا عذر کے بغیر توڑ دیا،یا ظہار کرنے والے نے جس عورت سے ظہار کیا ان دو مہینوں  کے اندر دن یا رات میں  اُس سے جان بوجھ کر یا بھول کر صحبت کر لی تو نئے سرے سے روزے رکھے کیونکہ شرط یہ ہے کہ جماع سے پہلے دومہینے کے پے در پے روزے رکھے اور ان صورتوں  میں  یہ شرط نہ پائی گئی۔

(4)…روزے رکھنے پر بھی اگر قدرت نہ ہو کہ بیمار ہے اور صحت یاب ہونے کی امید نہیں  یا بہت بوڑھا ہے تو ساٹھ مسکینوں  کو دونوں  وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور اس میں  یہ اختیار ہے کہ اکٹھے ساٹھ مسکینوں  کو کھلادے یا مُتَفَرّق طور پر، مگر شرط یہ ہے کہ اس دوران روزے رکھنے پر قدرت حاصل نہ ہو ورنہ کھلانا صدقہ نفل ہوگا اور کفارہ میں  روزے رکھنے ہوں  گے اور اگر ایک وقت ساٹھ کو کھلایا دوسرے وقت ان کے علاوہ دوسرے ساٹھ مسکینوں  کو کھلایا تو کفارہ ادا نہ ہوا بلکہ ضروری ہے کہ پہلے یا بعد والے مسکینوں  کو پھر ایک وقت کھلائے۔

(5)…شرط یہ ہے کہ جن مسکینوں  کو کھانا کھلایا ہواُن میں  کوئی ایسا نا بالغ نہ ہو جوبالغ ہونے کے قریب ہو ،ہاں  اگر ایک جوان کی پوری خوراک کا اُسے مالک کر دیا تو کافی ہے۔

(6)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر مسکین کو صدقۂ فطر کی مقدار یعنی نصف صاع ( تقریبا ًدو کلو ) گندم یا ایک صاع ( تقریبا ًچار کلو) جَویا ان کی قیمت کا مالک کر دیا جائے ،مگر مباح کر دینا کافی نہیں (بلکہ مالک بنانا ضروری ہے) اور یہ اُنہی لوگوں  کو دے سکتے ہیں  جنہیں صدقۂ فطر دے سکتے ہیں  اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح کو کھلائے اور شام کے لیے قیمت دیدے یا شام کو کھلائے اور صبح کے کھانے کی قیمت دیدے ،یا دو دن صبح کو یا شام کو کھلائے، یا تیس کو کھلائے اور تیس کو دیدے غرض یہ کہ ساٹھ کی تعداد جس طرح چاہے پوری کرے اس کا اختیار ہے ۔

(7)…کھلانے میں  پیٹ بھر کر کھلانا شرط ہے اگرچہ تھوڑے ہی کھانے میں  سیرہوجائیں اور اگر پہلے ہی سے کوئی سیر تھا تو اُس کا کھانا کافی نہیں  اور بہتر یہ ہے کہ گندم کی روٹی اور سالن کھلائے اوراس سے اچھا کھاناہو تو اور بہتر اور جَوکی روٹی ہو تو سالن ضروری ہے۔

(8)…ایک مسکین کو ساٹھ دن تک دونوں  وقت کھلایا ،یا ہر روز صدقۂ فطر کی مقداراُسے دیدیا جب بھی کفارہ اد ا ہوگیا اور اگر ایک ہی دن میں  ایک مسکین کو سب دیدیا ایک دفعہ میں  یا ساٹھ دفعہ کر کے، یا اُس کو سب مباح کرنے کے طور پر دیا تو صرف اُس ایک دن کا ادا ہوا۔ یوہیں  اگر تیس مَساکین کو ایک ایک صاع گندم دی یا دودو صاع جَو دئیے تو صرف تیس کو دینا قرار پائے گا یعنی تیس مساکین کو پھر دینا پڑے گا، یہ اُس صورت میں  ہے کہ ایک دن میں  دیئے ہوں  اور اگر دودنوں  میں  دئیے ہوں  تو جائز ہے۔

(9)…ایک سو بیس مسکینوں  کو ایک وقت کھانا کھلادیا تو کفارہ ادا نہ ہوا بلکہ ضروری ہے کہ ان میں  سے ساٹھ کو پھر ایک وقت کھلائے خواہ اُسی دن یاکسی دوسرے دن اور اگر وہ نہ ملیں  تو دوسرے ساٹھ مسکینوں  کو دونوں  وقت کھلائے۔

(10)…ظہار میں  یہ ضروری ہے کہ قربت سے پہلے ساٹھ مساکین کو کھلادے اور اگر ابھی پورے ساٹھ مساکین کو کھلا نہیں  چکا ہے اور درمیان میں  وطی کرلی تو اگرچہ یہ حرام ہے مگر جتنوں  کو کھلا چکا ہے وہ باطل نہ ہوا، با قیوں  کو کھلادے،نئے سرے سے پھر ساٹھ کو کھلانا ضروری نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ ہشتم، کفارہ کا بیان، ۲ / ۲۱۳-۲۱۷)