banner image

Home ur Surah Al Muminun ayat 96 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِنُوْن

Al Muminun

HR Background

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ(96)

ترجمہ: کنزالایمان سب سے اچھی بھلائی سے بُرائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ: بُرائی کو اس خصلت و عادت سے دفع کروجو سب سے اچھی ہو۔} مفسرین نے اس خوبصورت جملے کے کثیرمعنی بیان فرمائے ہیں ، ان میں  سے چند یہ ہیں ۔(1) توحید جو کہ سب سے اعلیٰ بھلائی ہے اس سے شرک کی برائی کو دفع فرمائیں ۔ (2)طاعت و تقویٰ کو رواج دے کر مَعصیَت اور گناہ کی برائی دفع کیجئے۔ (3)اپنے مَکارمِ اَخلاق سے خطا کاروں  پر اس طرح عفْو ورحمت فرمائیں  جس سے دین میں  کوئی سستی نہ ہو۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۶۳، ملخصاً)

رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی مثالیں :

            سُبْحَانَ اللّٰہ! اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور آپ کے ذریعے آپ کی امت کی کتنی پیاری تربیت فرمائی ہے، اسی طرح ایک اور آیت میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘(حم السجدہ:۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اچھائی اور برائی برابرنہیں  ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کےدرمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔

            حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں  برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی بے شمار مثالیں  موجود ہیں ، جیسے سو اونٹوں  کے لالچ میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کے لئے آنے والے سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی۔آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کے ارادے سے زہر میں  بجھی تلوار لے کر آنے والے عمیر بن وہب کے ساتھ ایسا سلوک فرمایا کہ وہ وہیں  کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ فتحِ مکہ کے بعد ان کی سفارش پر صفوان بن امیہ کو بھی معاف کر دیا، منافقوں  کے سردار عبد اللہ بن اُبی سلول کی نماز جنازہ پڑھا دی۔مدینہ منورہ پر کئی حملے کرنے والے ابو سفیان کو معاف کر دیا۔ اپنے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو شہید کرنے والے شخص وحشی کومعاف کر دیا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا کلیجہ چبانے والی ہند بنت ِعتبہ کو معاف کر دیا۔اگر تمام مسلمان اس آیت مبارکہ میں  دئیے گئے حکم پر عمل پیرا ہوجائیں  تو کوئی بعید نہیں  کہ ہمارے معاشرے میں  امن و سکون کا دَور دورہ ہو جائے۔

{نَحْنُ اَعْلَمُ: ہم خوب جانتے ہیں ۔} اس آیت میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے  اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم خوب جانتے ہیں  جو باتیں  یہ کفار  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  کررہے ہیں ، آپ ان کا معاملہ ہم پہ چھوڑدیں ، ہم انہیں  اس کی سزا دیں  گے۔( ابوسعود ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۹۶ ، ۴ / ۶۳ ، بیضاوی ، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۱۶۷، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۷۶۴، ملتقطاً)