Home ≫ ur ≫ Surah Al Munafiqun ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَ رَاَیْتَهُمْ یَصُدُّوْنَ وَ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ(5)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا: اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ ۔} شانِ نزول: غزوہِ مریسیع سے فارغ ہو کر جب نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سرِ راہ قیام فرمایا تو وہاں یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اجیر جہجاہ غفاری اور عبد اللّٰہ بن اُبی کے حلیف سنان بن دبرجُہَنی کے درمیان لڑائی ہوگئی، جہجاہ نے مہاجرین کو اور سنان نے انصار کو پکارا، اس وقت عبد اللّٰہ بن اُبی منافق نے حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں بہت گستاخانہ اور بے ہودہ باتیں بکیں اور یہ کہا کہ مدینہ طیبہ پہنچ کر ہم میں سے عزت والے ذلیلوں کو نکال دیں گے ،اور اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اگر تم انہیں اپنا جوٹھا کھانا نہ دو تو یہ تمہاری گردنوں پر سوار نہ ہوں ، اب ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ مدینہ سے بھاگ جائیں ۔ اس کی یہ ناشائستہ گفتگو سن کرحضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اِس بکواس کی برداشت کی تاب نہ رہی اور اُنہوں نے اس سے فرمایا : خدا کی قسم! تو ہی ذلیل اور اپنی قوم میں بغض ڈالنے والا ہے جبکہ سرکارِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے عزت و قوت دی ہے اور آپ مسلمانوں کے محبوب ہیں۔ عبد اللّٰہ بن اُبی کہنے لگا: چپ ہو جاؤ، میں تو ہنسی مذاق کے طور پر یوں کہہ رہا تھا۔حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ خبر حضورپُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچائی تو حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عبد اللّٰہ بن اُبی کے قتل کی اجازت چاہی،نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع کر دیا اور ارشادفرمایا ’’ لوگ کہیں گے کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں ۔ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عبد اللّٰہ بن اُبی سے دریافت فرمایا کہ تو نے یہ باتیں کہیں تھیں ؟وہ مکر گیا اور قسم کھا گیا کہ میں نے کچھ بھی نہیں کہا ،اس کے ساتھی جو مجلس شریف میں حاضر تھے وہ عرض کرنے لگے کہ عبد اللّٰہ بن اُبی بوڑھا شخص ہے، یہ جو کہتا ہے ٹھیک ہی کہتا ہے،حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شاید دھوکا ہوا اور بات یاد نہ رہی ہو ۔پھر جب اُوپر کی آیتیں نازل ہوئیں اور عبد اللّٰہ بن اُبی کا جھوٹ ظاہر ہوگیا توا س سے کہا گیا کہ جااورجاکرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کر کہ وہ تیرے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے معافی چاہیں ، یہ سن کر اس نے گردن پھیری اور کہنے لگا کہ تم نے کہا: ایمان لا تو میں ایمان لے آیا ،تم نے کہا :زکوٰۃ دے تو میں نے زکوٰۃ دی ،اب یہی باقی رہ گیا ہے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سجدہ کروں ، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب منافقوں کا جھوٹ ظاہر ہونے کے بعد نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا جائے کہ تم آؤ تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول تمہارے لیے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے لطف و کرم سے تمہارے گناہ بخش دے اور تمہارے عیبوں پر پردہ ڈال دے تو وہ اس سے اِعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کودوسری طرف گھمالیتے ہیں (اوراے مسلمانو!) تم انہیں دیکھو گے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری سے تکبُّر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں ۔(خازن، المنافقون، تحت الآیۃ : ۵، ۴ / ۲۷۱، مدارک، المنافقون ، تحت الآیۃ : ۵، ص۱۲۴۴ ، روح البیان، المنافقون، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۵۳۵، ملتقطاً)