Home ≫ ur ≫ Surah Al Qalam ≫ ayat 42 ≫ Translation ≫ Tafsir
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ(42)خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ(43)
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ: جس دن معاملہ بڑا سخت ہوجائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اپنے شریکوں کو ا س دن لے آئیں جس دن ایک ساق کھولی جائے گی تاکہ وہ انہیں فائدہ پہنچائیں اور ان کی سفارش کریں اور(قیامت کے دن) کفار و منافقین کو ان کے ایمان کے امتحان اور دنیا میں سجدہ ریز نہ ہو نے پر ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ سجدہ نہ کرسکیں گے کیونکہ ان کی پشتیں تانبے کے تختے کی طرح سخت ہوجائیں گی اور اس وقت ان کا حال یہ ہو گا کہ دنیا میں ایمان قبول نہ کرنے اور سجدوں کو ترک کرنے پر شرم وندامت سے ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی،ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے اور ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی حالانکہ انہیں رسولوں کی (مُقَدّس) زبانوں سے دنیا میں سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا اور اذانوں اور تکبیروں میں حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے ساتھ انہیں نماز اور سجدے کی دعوت دی جاتی تھی لیکن یہ تندرست ہونے کے باوجود سجدہ نہ کرتے تھے اور ان کے اسی عمل کا یہ نتیجہ ہے جو یہاں سجدے سے محروم رہے ۔
یاد رہے کہ جمہور علماء کے نزدیک یہاں آیت میں ساق کھلنے سے مراد وہ شدت اور سختی ہے جو قیامت کے دن حساب اور جزا کے لئے پیش آئے گی اور اس وقت کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ قیامت میں وہ بڑا سخت وقت ہے ۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ یہاں محاورے والا معنیٰ مراد نہیں ہے بلکہ یہ معنی ہے کہ جس دن ساق یعنی پنڈلی کھولی جائے گی۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ آیت مُتشابہات میں سے ہے اور قرآنِ پاک یا اَحادیث میں مذکور مُتشابہات کے بارے میں اَسلا ف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کے معنیٰ میں کلام نہیں کرتے اور یہ فرماتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس سے جو مراد ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں ۔( خازن،ن، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳، ۴ / ۲۹۸،۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳، ص۱۲۷۰، جمل، القلم، تحت الآیۃ:۴۲-۴۳،۸ / ۸۳-۸۴، عمدۃ القاری،کتاب تفسیر القرآن، سورۃ ن والقلم، باب یوم یکشف عن ساق، ۱۳ / ۴۳۲، تحت الحدیث: ۴۹۱۹، ملتقطاً)
نماز میں سُستی کرنے والے مسلمانوں کے لئے عبرت و نصیحت:
یہاں آیت میں بیان کی گئی وعید اگرچہ کفار اور منافقین کے لئے ہے کہ انہیں سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ اس کی طاقت نہیں رکھیں گے کیونکہ دنیا میں انہیں خدا کے سامنے جھکنے کی طرف بلایا جاتا تھا تو یہ انکار کرتے تھے، یہ اگرچہ کفار کے بارے میں ہے لیکن اس میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بہت عبرت اور نصیحت ہے جو شرعی عذر نہ ہو نے کے باوجودنماز ادا نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات نماز ہی قضا کر دیتے ہیں یا سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں ۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحکم دیتے ہوئے ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ‘‘(بقرہ:۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
اور نماز ادا کرنے میں سُستی کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘(نساء:۱۴۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللّٰہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللّٰہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔
اور نمازیں قضا کر کے پڑھنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ’’ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴) الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ‘‘(ماعون:۴،۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔
اور نمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ‘‘(مریم:۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جا ملیں گے۔
اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پر سب سے زیادہ گراں نماز عشا اور فجر ہے اوراگر وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔( مسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ و بیان التشدید فی التخلف عنہا ، ص ۳۲۷ ، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))
اورحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسلام میں سب سے زیادہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب کیا چیز ہے؟ارشاد فرمایا ’’وقت میں نماز پڑھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ۔ نماز دین کا ستون ہے۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۹، الحدیث: ۲۸۰۷)
اور حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قصداً نماز چھوڑی تو اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔( حلیۃ الاولیاء،۳۹۰- مسعر بن کدام، ۷ / ۲۹۹، الحدیث: ۱۰۵۹۰)
اور حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۸۵۹)
اللّٰہ تعالیٰ ہرمسلمان کو پابندی کے ساتھ اور صحیح طریقے سے با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نماز کی ادائیگی میں سُستی اور کاہلی سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔