Home ≫ ur ≫ Surah Al Qamar ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ(1)
تفسیر: صراط الجنان
{اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ: قیامت قریب آگئی۔} یعنی قیامت کے نزدیک ہونے کی نشانی ظاہر ہوگئی کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزہ سے چاند دو ٹکڑے ہو کر پھٹ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا جس کا اس آیت میں بیان ہے ،یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روشن معجزات میں سے ہے ۔ (خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۰۱)
اشارے سے چاند چیر دیا:
صحاح ستہ کی کثیر اَحادیث میں اس عظیم معجزے کے مختلف پہلو بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اہل ِمکہ نے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک معجزہ دکھانے کی درخواست کی تو حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند ٹکڑے کرکے دکھایا۔( بخاری،کتاب المناقب،باب سؤال المشرکین ان یریہم النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آیۃ۔۔۔الخ،۲ / ۵۱۱،الحدیث:۳۶۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو کر پھٹا ،ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا ٹکڑا اس کے نیچے، تب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا گواہ رہو۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ اقتربت الساعۃ القمر، باب وانشقّ القمر۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۳۹، الحدیث: ۴۸۶۴)
حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند دو ٹکڑے کر کے دکھایا تو کفارِ قریش نے کہا: محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے جادو سے ہماری نظر بند کردی ہے، اس پر ان کی جماعت کے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ ہماری نظر بندی ہے تو باہر کہیں بھی کسی کو چاند کے دو حصے نظر نہ آئے ہوں گے۔ اب جو قافلے آنے والے ہیں اُن کی جستجورکھو اور مسافروں سے دریافت کرو،اگر دوسرے مقامات سے بھی چاند کا ٹکڑے ہونا دیکھا گیا ہے تو بے شک معجزہ ہے ۔چنانچہ سفر سے آنے والوں سے دریافت کیا تواُنہوں نے بیان کیا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس روز چاند کے دوحصے ہوگئے تھے ۔( ترمذی،کتاب التفسیر،باب ومن سورۃ القمر،۵ / ۱۸۹، الحدیث: ۳۳۰۰، جامع الاصول فی احادیث الرسول، حرف النون، الکتاب الاول، الباب الخامس، الفصل السابع، ۱۱ / ۳۶۷، الحدیث: ۸۹۳۷)اب مشرکین کو انکار کی گنجائش نہ رہی لیکن وہ جاہلانہ طور پر اسے جادو ہی جادو کہتے رہے۔
ان کے علاوہ صحاح ستہ کی اوراَحادیث میں بھی اس عظیم معجزے کا بیان ہے اوریہ خبر شہرت کے اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اس کا انکار کرنا عقل و انصاف سے دشمنی اور بے دینی ہے۔