banner image

Home ur Surah Al Qamar ayat 50 Translation Tafsir

اَلْقَمَر

Al Qamar

HR Background

اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(49)وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۭ بِالْبَصَرِ(50)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی ۔ اور ہمارا کام تو ایک بات کی بات ہے جیسے پلک مارنا۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔ اور ہمارا کام تو صرف ایک بات ہے جیسے پلک جھپکنا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ: بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے ہر چیز حکمت کے تقاضے کے مطابق ایک اندازے سے پیدا فرمائی ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۹۰)شانِ نزول: یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منکر ہیں اورنئے واقعات کوستاروں وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔

تقدیر کے مُنکروں کے بارے میں اَحادیث:

یہاں تقدیر کے منکر لوگوں کے بارے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر امت میں مجوسی ہوتے تھے اور اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو کہیں گے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ۔ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک نہ ہونا اور جو ان میں سے بیمار پڑے اس کی عیادت نہ کرنا،وہ دجال کے ساتھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ انہیں دجال کے ساتھ ملا دے۔( ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۶۹۲)

(2)…حضرت جابر بن عبداللہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں ،اگر وہ لوگ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا،اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو نا اور اگر تمہاری ان سے ملاقات ہو جائے تو انہیں سلام تک نہ کرنا۔( ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب فی القدر، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۹۲)

یاد رہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان لائے اور تقدیر کے بارے میں بحث نہ کرے کہ یہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لائے،اسی طرح جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ جو مصیبت اسے پہنچی ہے وہ اس سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء انّ الایمان بالقدر خیرہ وشرّہ، ۴ / ۵۷، الحدیث: ۲۱۵۱)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم تقدیر کے بارے میں ایک دوسرے سے بحث کر رہے تھے (یہ دیکھ کر) آپ کو اتنا جلال آیا کہ چہرۂ اَقدس ایسے سرخ ہو گیا جیسے آپ کے مبارک رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔آپ نے فرمایا’’کیا تمہیں اس بات کا حکم دیاگیا ہے یا اسی بات کے لئے میں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ؟تم سے پہلے لوگوں نے جب اس (تقدیر کے) بارے میں اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہو گئے،میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ اس کے بارے میں مت جھگڑو۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء من التشدید فی الخوض فی القدر، ۴ / ۵۱، الحدیث: ۲۱۴۰)

جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ جیسی عظیم ہستیوں کو تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں اس سے بدرجہ اَوْلیٰ باز رہنا چاہئے۔

{وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ: اور ہمارا کام تو صرف ایک بات ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم جس چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمائیں تو وہ ہمارے صرف ایک مرتبہ حکم فرمانے کے ساتھ ہی اتنی دیر میں ہو جاتی ہے جتنی دیر تم میں سے کسی کو پلک جھپکنے میں لگتی ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۱۱۹۰)