banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 46 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰـكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ(46)

ترجمہ: کنزالایمان انہیں نکلنا منظور ہوتا تو اس کا سامان کرتے مگر خدا ہی کو ان کا اٹھنا ناپسند ہوا تو ان میں کاہلی بھردی اور فرمایا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے کچھ تو سامان تیار کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ہی ناپسند ہے تو اس نے ان میں سستی پیدا کردی اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ:اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا۔} یعنی منافق ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں جانے کو تیار تھے لیکن اچانک بیماری، لاچاری یا کسی مجبوری کی وجہ سے رک گئے ۔یہ جھوٹے ہیں کیونکہ انہوں نے سفرِ جہاد کی پہلے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی، اگر ان کا جہاد میں جانے کا ارادہ ہوتا تو کچھ تیاری تو کرتے۔

بہت سی چیزوں کا اعتبار قَرائن سے بھی ہوتا ہے:

            اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم تو یقینا قطعی ہے لیکن ہمارے لئے اس میں ایک نکتہ ہے کہ بہت سی چیزوں کا اعتبار قرائن سے بھی کیا جاتا ہے جیسے یہاں منافقین کا جہاد کیلئے کوئی تیاری نہ کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ انہوں نے جہاد کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔

{وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ:اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب منافقین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جہاد میں شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کی تو ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھے رہنے والوں یعنی عورتوں ،بچوں ، مریضوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۴۷)