ترجمہ: کنزالایمان
انہیں نکلنا منظور ہوتا تو اس کا سامان کرتے مگر خدا ہی کو ان کا اٹھنا ناپسند ہوا تو ان میں کاہلی بھردی اور فرمایا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے کچھ تو سامان تیار کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ہی ناپسند ہے تو اس نے ان میں سستی پیدا کردی اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَرَادُوا
الْخُرُوْجَ:اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا۔} یعنی منافق
ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں جانے کو
تیار تھے لیکن اچانک بیماری، لاچاری یا کسی مجبوری کی وجہ سے رک گئے ۔یہ جھوٹے ہیں
کیونکہ انہوں نے سفرِ جہاد کی پہلے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی، اگر ان کا
جہاد میں جانے کا ارادہ ہوتا تو کچھ تیاری تو کرتے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّکا علم تو یقینا قطعی ہے لیکن ہمارے لئے اس میں ایک نکتہ ہے کہ بہت
سی چیزوں کا اعتبار قرائن سے بھی کیا جاتا ہے
جیسے یہاں منافقین کا جہاد کیلئے کوئی تیاری نہ کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ انہوں
نے جہاد کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔
{وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا
مَعَ الْقٰعِدِیْنَ:اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ
بیٹھے رہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب
منافقین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جہاد میں شریک نہ ہونے
کی اجازت طلب کی تو ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھے رہنے والوں یعنی عورتوں ،بچوں ،
مریضوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۴۷)
اس سورت کے دس سے زیادہ
نام ہیں ،ان میں سے یہ دو نام مشہور ہیں (1) توبہ۔ اس سورت میں کثرت سے توبہ کا ذکر کیا گیا اس لئے اسے ’’سورۂ
توبہ‘‘ کہتے ہیں۔ (2)بَراء ت۔یہاں اس کا معنی
بری الذمہ ہونا ہے، اور اس کی پہلی آیت میں کفار سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے
،اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ براء ت‘‘ کہتے ہیں۔
سورۂ توبہ کے شروع میں
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ لکھے جانے کی وجہ:
اس سورت کے شروع
میں بِسْمِ اللہْ نہیں لکھی گئی، اس
کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سورت کے ساتھبِسْمِ اللہْلے کر نازل ہی نہیں ہوئے تھے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے بِسْمِ اللہْ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔(جلالین مع صاوی، سورۃ التوبۃ،۳ /
۷۸۳)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے
کہ بِسْمِ اللہْامان ہے اور سورۂ توبہ
تلوار کے ساتھ امن اٹھادینے کے لئے نازل ہوئی ہے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ التوبۃ، لمَ لم تکتب فی
براء ۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم؟،۲ / ۶۳، الحدیث:۳۳۲۶)
صحیح بخاری میں حضرت
براء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے کہ
قرآنِ کریم کی سورتوں میں سب سے آخری سورت ’’سورۂ توبہ‘‘ نازل ہوئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب یستفتونک قل اللہ یفتیکم
فی الکلالۃ۔۔۔ الخ،۳ / ۲۱۲، الحدیث:۴۶۰۵)
(1) … حضرت علی
المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت
ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’منافق
سورۂ ہود، سورۂ براء ت، سورۂ یٰس، سورۂ دُخان اور سورۂ نَباء کو یاد نہیں کر
سکتا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد،۵ /
۳۵۰،
الحدیث:۷۵۷۰)
(2) …حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب سورۂ
براء ت نازل ہوئی تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں
لوگوں کی خاطر داری کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ (شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی الحلم
والتؤدۃ،۶ / ۳۵۱، الحدیث:۸۴۷۵)
(3) … حضرت عطیہ ہمدانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے لکھا ’’تم خود سورۂ براء ت سیکھو اور اپنی عورتوں کو سورۂ نور
سکھاؤ۔ (سنن سعید بن منصور، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ
التوبۃ،۵ / ۲۳۱، الحدیث:۱۰۰۳)
مضامین
سورۂ توبہ کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون
یہ ہے کہ اس میں مشرکین اور اہلِ کتاب کے خلاف جہاد کرنے کے احکام بیان کئے گئے
اور غزوۂ تبوک سے منافقوں کو روک کر مسلمانوں اور منافقوں میں اِمتیاز کر دیا
گیا۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … ان مشرکین سے بَراء
ت کا اعلان کیاگیا جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوا اور وہ اپنے معاہدے پر قائم نہ
رہے۔
(2) …کفارِ مکہ کے مسلمانوں سے
افضل ہونے کے دعوے کارد کیا گیا۔
(3)…غزوۂ حُنَین کا واقعہ
بیان کیا گیا۔
(4) …یہودیوں کا حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت
عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار
دینے کا رد کیا گیا۔
(5) …ہجرت کے وقت نبی
کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی غارِ ثور میں ہونے والی گفتگو بیان کی
گئی۔
(6) …زکوٰۃ کے مَصارِف بیان
کئے گئے۔
(7) …مسجدِ ضِرار کا واقعہ
بیان کیا گیا اور مسجدِ قبا کی فضیلت بیان کی گئی۔
(8) …حضرت کعب بن مالک، حضرت
ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جو کہ غزوہ ٔتبوک میں حاضر
نہ ہوئے تھے ان کی توبہ کا واقعہ بیان کیا گیا۔
سورۂ توبہ کی اپنے سے ما قبل سورت ’’اَنفال‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے
کہ ان دونوں سورتوں میں اسلامی ملک کے خارجی اور داخلی اصول بیان کئے گئے ،صلح اور
جنگ کے احکام، سچے مومنین، کفار اور منافقین کے حالات بیان کئے گئے، دیگر ممالک کے
ساتھ ہونے والے معاہدوں اور عہدو پیمان کے احکام بیان کئے گئے البتہ سورۂ اَنفال
میں مسلمانوں کو معاہدے پورے کرنے کاحکم دیاگیا تھا اور سورۂ توبہ میں یہ حکم دیا
گیا ہے کہ اگر کفار کی طرف سے عہد شکنی کی ابتداء ہو تو وہ بھی ان کے ساتھ کئے
ہوئے معاہدے توڑ دیں۔ نیز دونوں سورتوں میں مشرکین کو مسجدِ حرام سے روکنے کا حکم
دیا گیا، راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی، مشرکین اور اہلِ کتاب سے
جہاد کرنے پر تفصیلی کلام کیا گیا اور منافقوں کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں۔