ترجمہ: کنزالایمان
کیا اس سے نڈر ہو بیٹھے کہ اللہ کا عذاب انہیں آکر گھیر لے یا قیامت ان پر اچانک آجائے اور انہیں خبر نہ ہو۔
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر اللہ کے عذاب سے چھاجانے والی مصیبت آجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَاَمِنُوْا:کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں ۔} یعنی جو لوگ اللّٰہ
تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے اور غیرُ اللّٰہ کی عبادت کرنے میں مصروف ہیں کیا انہیں اس بات کا
کوئی خوف نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے
کی وجہ سے ان پر اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا عذاب
نازل ہو جائے جو مکمل طور پر انہیں اپنی گرفت میں لے لے یا اسی شرک
اور کفر کی حالت میں اچانک ان پر قیامت آ جائے اور اللّٰہ تعالیٰ دائمی عذاب کے لئے انہیں دوزخ میں ڈال دے۔(تفسیر طبری، یوسف، تحت
الآیۃ: ۱۰۷، ۷ / ۳۱۴)
سورۂ یوسف مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی اور اس سورت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کے علماء نے عرب کے سرداروں
سے کہا تھا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کرو کہ حضرت یعقو ب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ملک ِ شام سے
مصر میں کس طرح پہنچی اور اُن کے وہاں جاکر آباد ہونے کا سبب کیا ہوا اور حضرت
یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا واقعہ کیا ہے؟ اس پر
یہ سور ۂ مبارکہ نازل ہوئی۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ:
۱، ص۵۱۹)
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات ِزندگی اور ان کی سیرتِ مبارکہ کو تفصیل
کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ یوسف‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ یوسف کے بارے میں
اَحادیث:
(1)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ایک دن یہودیوں کے علماء میں سے ایک عالم جو کہ تورات
کا قاری تھا حضور پر نور صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس وقت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سورۂ یوسف کی تلاوت فرما
رہے تھے۔ اس عالم نے سورۂ یوسف سن کر عرض کی: اے محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)، آپ کو یہ سورت کس نے
سکھائی ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سورت
سکھائی ہے۔ وہ یہودی عالم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد سن کر بہت حیران
ہوا اور یہودیوں کے پاس آ کر ان سے کہنے لگا ’’کیا تم جانتے ہو،خدا کی قسم! محمد(مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ) قرآنِ مجید میں ان
باتوں کی تلاوت کرتے ہیں جو تورات میں نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک گروہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا اور انہوں
نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف کو پہچانا، مُہرِ نبوت کی زیارت کی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے سورۂ یوسف سن کر
اسلام قبول کر لیا۔(دلائل النبوہ للبیہقی، جماع ابواب اسئلۃ الیہود
وغیرہم۔۔۔ الخ، باب ما جاء فی تعجب الحبر الذی سمعہ یقرأ سورۃ یوسف لموافقتہا۔۔۔
الخ، ۶ /
۲۷۶)
اس سورت کا مرکزی مضمون
یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی دلیل کے طور پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالاتِ زندگی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے
ہیں۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان ہوئے ہیں :
(1) …قرآنِ مجید کا بہترین
قصہ بیان کیا گیا ۔
(2) …حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں یہودیوں کے لئے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی نبوت کی نشانیاں
ہیں۔
(3) …تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دنیا میں تشریف لائے سب مرد ہی تھے کسی عورت کو نبوت نہیں ملی۔
(4) …انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کے
واقعات میں عقلمندوں کے لئے عبرت اور نصیحت ہے۔
(5) …اس سورت کے آخر میں
قرآنِ مجید کے اَوصاف بیان کئے گئے کہ یہ سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے،
اس میں ہر چیز کا مُفَصَّل بیان ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
مناسبت
سورۂ ہود کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ یوسف کی اپنے سے ماقبل سورت ’’ہود‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ
سورۂ ہود میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرشتوں کے ذریعے
حضرت اسحاق عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد حضرت
یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی بشارت دی گئی
اور سورۂ یوسف میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد کے
حالاتِ زندگی بیان کئے گئے ہیں ، اور ایک مناسبت یہ ہے کہ سورۂ یوسف سورۂ ہود کے
بعد ناز ل ہوئی اور قرآنِ مجید میں سورتوں کی ترتیب میں بھی اسے سورہ ٔہود کے بعد
ہی ذکر کیا گیا ہے۔(تناسق الدرر، سورۃ یوسف، ص۹۴-۹۵)
نوٹ:امام محمد
غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے سورۂ یوسف کی ایک جداگانہ تفسیر بھی لکھی، جس
کا انداز صوفیانہ ہے اور آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آیات کی تفسیر کے تحت
مؤثر نصیحتیں ، تشبیہات ،حکایات اور نِکات بھی بیان فرمائے ہیں۔