Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ-وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ(33)فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(34)ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰى حِیْنٍ(35)
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ بَدَا لَهُمْ:پھران کیلئے یہی بات ظاہر ہوئی۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے امید پوری ہونے کی کوئی شکل نہ دیکھی تو مصری عورتوں نے زلیخا سے کہا کہ اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب دو تین روز حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانہ میں رکھا جائے تاکہ وہاں کی محنت و مشقت دیکھ کر انہیں نعمت و راحت کی قدر ہو اور وہ تیری درخواست قبول کرلیں۔ زلیخا نے اس رائے کو مانا اور عزیز ِمصر سے کہا کہ میں اس عبرانی غلام کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہوں اور میری طبیعت اس سے نفرت کرنے لگی ہے ،مناسب یہ ہے کہ ان کو قید کیا جائے تاکہ لو گ سمجھ لیں کہ وہ خطاوار ہیں اور میں ملامت سے بری ہوں۔ یہ بات عزیز کے خیال میں آگئی اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانے میں بھیج دیا۔ (تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۴۵۲، ملخصاً)