Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 58 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَ هُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(58)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ:اور یوسف کے بھائی آئے۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ جب قحط کی شدت ہوئی اور بلائے عظیم عام ہوگئی، تمام شہر قحط کی سخت تر مصیبت میں مبتلا ہوگئے اور ہر جانب سے لوگ غلہ خریدنے کے لئے مصر پہنچنے لگے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے تاکہ مساوات رہے اور سب کی مصیبت دور ہو۔ قحط کی جیسی مصیبت مصر اور دیگر ملکوں میں آئی، ایسی ہی کنعان میں بھی آئی اُس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کے سوا اپنے دسوں بیٹوں کو غلہ خریدنے مصر بھیجا۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی مصر میں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حاضر ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا لیکن وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ پہچان سکے کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنوئیں میں ڈالنے سے اب تک چالیس سال کا طویل زمانہ گزر چکا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انتقال ہوچکا ہوگا جبکہ یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تخت ِسلطنت پر ،شاہانہ لباس میں شوکت و شان کے ساتھ جلوہ فرما تھے اس لئے انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ پہچانا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عبرانی زبان میں گفتگو کی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اسی زبان میں جواب دیا ،پھر فرمایا ’’تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے عرض کی ’’ہم شام کے رہنے والے ہیں ، جس مصیبت میں دنیا مبتلا ہے اسی میں ہم بھی ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے غلہ خریدنے آئے ہیں ۔حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’کہیں تم جاسوس تو نہیں ہو۔ انہوں نے کہا ’’ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم جاسوس نہیں ہیں ،ہم سب بھائی ہیں ، ایک باپ کی اولاد ہیں ، ہمارے والد بہت بزرگ ،زیادہ عمر والے اور صدیق ہیں ، ان کا نامِ نامی حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نبی ہیں ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ تم کتنے بھائی ہو؟ انہوں نے جواب دیا’’ ہم بارہ بھائی تھے لیکن ایک بھائی ہمارے ساتھ جنگل گیا تو وہ ہلاک ہوگیا تھا، وہ والدصاحب کو ہم سب سے زیادہ پیارا تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’اب تم کتنے ہو؟ عرض کی’’ دس۔ پھر فرمایا’’ گیارہواں کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا’’وہ والد صاحب کے پاس ہے کیونکہ ہمارا جو بھائی ہلاک ہوگیا تھاوہ اسی کا حقیقی بھائی ہے، اب والد صاحب کی اسی سے کچھ تسلی ہوتی ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۲۹)