banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 64 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُؕ-فَاللّٰهُ خَیْرٌ حٰفِظًا۪-وَّ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(64)

ترجمہ: کنزالایمان کہا کیا اس کے بارے میں تم پر ویسا ہی اعتبار کرلوں جیسا پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا تو اللہ سب سے بہتر نگہبان اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ۔ ترجمہ: کنزالعرفان یعقوب نے فرمایا: کیا اس کے بارے میں تم پر ویسا ہی اعتبار کرلوں جیسا پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھاتو اللہ سب سے بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  کی یہ بات سن کر حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میں  اپنے بیٹے بنیامین کے بارے میں  تمہارا اعتبار کیسے کر لوں  حالانکہ اس کے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تم نے جو کچھ کیا وہ جانتے ہو اور اب بنیامین کے بارے میں  بھی ویسی ہی بات کر رہے ہو، تمہارے بنیامین کی حفاظت کرنے کے مقابلے میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حفاظت سب سے بہتر ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۰)

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حفاظت سب سے بہتر ہے:

            مخلوق کے مقابلے میں  یقینا اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت ہی سب سے بہتر ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی جان،مال، اولاد اور دین و ایمان وغیرہ کی حفاظت سے متعلق حقیقی اعتماد اور بھروسہ اللّٰہ تعالیٰ پر ہی کرے کیونکہ دیگر لوگ حفاظت کے معاملے میں  آلات اور اسباب کے محتاج ہیں  جبکہ اللّٰہ تعالیٰ تمام اُمور اور ہر طرح کے حالات میں  اسباب و آلات سے غنی اور بے نیاز ہے اورجن کی حفاظت اللّٰہ تعالیٰ اپنے ذمہِ کرم پر لے لے ،،یا،،جنہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت میں  دیاجائے ان کی حفاظت سے متعلق دو حیرت انگیز واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضور پر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قضاءِ حاجت کا ارادہ فرماتے تو(آبادی سے کافی) دور تشریف لے جاتے، ایک دن آپ قضاءِ حاجت کے لئے تشریف لائے، پھر وضو فرمایا اور ایک موزہ پہن لیا تو اچانک ایک سبز رنگ کا پرندہ آیا اور دوسرے موزے کو لے کر بلند ہو گیا، پھر اس نے موزے کو پھینکا تو اس میں  سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکلا، (یہ دیکھ کر) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’یہ وہ اعزاز ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے ۔پھر آپ نے کہا ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعٍ‘‘اے اللّٰہ !میں  اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو دو ٹانگوں  پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو چارٹانگوں  پر چلتا ہے ۔ (معجم الاوسط، باب الہاء، ذکر من اسمہ ہاشم، ۶ / ۴۳۲، الحدیث: ۹۳۰۴)

(2)…حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطا ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگو ں  کے درمیان جلوہ فرما تھے کہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں  پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا ’’جتنی مشابہت ان دونوں   میں  پائی جارہی ہے میں  نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں  نہیں  دیکھی۔یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ’اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں  کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ سن کر آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ پورا واقعہ بیان کرو۔ وہ شخص عرض کرنے لگا: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میں  جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی، میں  نے جاتے وقت دعا کی : اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میری زوجہ کے پیٹ میں  جو حمل ہے میں  اُسے تیرے حوالے کرتا ہوں ، توہی اس کی حفاظت فرمانا۔ یہ دعا کر کے میں  جہاد کے لئے روانہ ہوگیا، جب میں  واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ ایک رات میں  نےاپنے چچا زاد بھائی سے کہا :مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔ چنا نچہ ہم جنت البقیع میں  پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔ جب ہم وہاں  پہنچے تو دیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں  باہر آرہی ہیں ۔ میں  نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا : یہ رو شنی کیسی ہے؟ اس نے جواب دیا: اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ، نہ جانے اس میں  کیا راز ہے؟ جب میں  نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں  ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں  گا ۔ چنانچہ میں  نے پھاؤڑا منگوایا اور ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں  نے اس میں  جھانکا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں  کی گو د میں  بیٹھا کھیل رہا تھا ،جب میں  قبر میں  اتر ا تو کسی ندا دینے والے نے ندا دی ’’ تو نے جو امانت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تواس کی ماں  کو بھی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا۔‘‘پس میں  نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا ، جیسے ہی میں  قبر سے باہر نکلا تو قبر پہلے کی طرح دوبارہ بند ہوگئی۔( عیون الحکایات، الحکایۃ الثانیۃ والسبعون، ص۹۵)

            یہاں  یہ بات یاد رہے کہ جان و مال کی حفاظت کے ظاہری اسباب اختیار کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ کرنے کے خلاف نہیں  کیونکہ تَوکل نام ہی اسی چیز کا ہے کہ اسباب اختیار کر کے نتیجہ اللّٰہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے ،لہٰذا جن لوگوں  نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھے یا دیگر اسباب اختیار کئے تو ان کے بارے میں  یہ نہیں  کہاجا سکتا کہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ نہیں ۔