Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 66 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّحَاطَ بِكُمْۚ-فَلَمَّاۤ اٰتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ(66)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا ’’میں اس وقت تک ہر گز بنیامین کو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ عہد نہ دو کہ تم ضرور اسے واپس بھی لے کر آؤ گے سوائے اس کے کہ تمہارا انتقال ہو جائے یا تم مغلوب ہو جاؤ اور بنیامین کو لے کر آنا تمہاری طاقت سے باہر ہوجائے۔ جب انہوں نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھا کر عہد دے دیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نگہبان ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۳۱)
ظاہری اسباب کو اختیار کرنا تَوکل کے خلاف نہیں :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس سے معلوم ہو اکہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا توکل کے خلاف نہیں لہٰذا ہر انسا ن کو چاہئے کہ وہ اس عالَم میں موجود معتبر اَسباب اختیار کرے اور صرف ان اسباب کو اختیار کرنے اور ان ہی پر بھروسہ کرنے کو کافی نہ سمجھے بلکہ اپنے دل کو اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کی تقدیر کی طرف متوجہ رکھے ،اللّٰہ تعالیٰ پر اور اس کی تدبیر پر اعتماد رکھے اور اس کے سوا ہر چیز سے اپنی امید ختم کر دے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۹۱-۲۹۲)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اسباب ترک کر دینا اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف اور اس کے طریقے سے جہالت ہے اور جب آدمی اسباب کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے اور یوں وہ اللّٰہ تعالیٰ کے طریقے کے مطابق عمل کرے تو یہ بات توکل کے خلاف نہیں ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الفن الاول فی جلب النافع، الدرجۃ الثانیۃ، ۴ / ۳۲۹)