Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 67 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍؕ-وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُۚ-وَ عَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(67)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ:اور فرمایا۔}جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مصر جانے کے ارادے سے نکلے توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے میرے بیٹو! مصر میں ایک دروازے سے نہ داخل ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے جانا تاکہ بری نظر لگنے سے محفوظ رہو۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۱)
یاد رہے کہ پہلی مرتبہ جب یہ لوگ مصر گئے تھے تو اس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ نہیں فرمایا تھا کیونکہ اس وقت تک کوئی یہ نہ جانتا تھا کہ یہ سب بھائی اور ایک باپ کی اولاد ہیں لیکن اب چونکہ جان چکے تھے اس لئے بری نظر لگ جانے کا اِحتمال تھا اس وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کوعلیحدہ علیحدہ ہو کر داخل ہونے کا حکم دیا۔(صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۹۶۸-۹۶۹)
مصیبتوں سے بچنے کی تدبیریں اختیار کرنا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ آفتوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنا اور مناسب احتیاطیں اختیار کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے،سیِّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آفتوں اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے خود بھی مناسب تدبیریں فرمایا کرتے اور دوسروں کوبھی بتایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ امام حسن اورامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا پر یہ کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ کلمات (پڑھ کر) دم کیا کرتے تھے ’’اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ‘‘(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)
اور حضرت عابس جُہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں تمہیں وہ کلمات نہ بتاؤں جو (شریر جنّات اور نظر ِبد سے) اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے میں سب سے افضل ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں (آپ ضرور بتائیے) ارشاد فرمایا ’’وہ کلمات یہ دونوں سورتیں ہیں (1) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ (2) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔(سنن نسائی، کتاب الاستعاذۃ، ۱-باب، ص۸۶۲، الحدیث: ۵۴۴۲)
بری نظر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے:
نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ بری نظر سے بچنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے،بری نظر سے متعلق حدیث پاک میں ہے ،حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نظرحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی ہے تو وہ نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لئے) غسل کرنے کا کہا جائے تو غسل کر لو۔ (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقی، ص۱۲۰۲، الحدیث: ۴۲(۲۱۸۸))
حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، بے شک بری نظر مرد کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں پہنچا دیتی ہے۔ (مسند الشہاب، ۶۷۸- انّ العین لتدخل الرجل القبر، ۲ / ۱۴۰، الحدیث: ۱۰۵۹)
بری نظر کا علاج:
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنّات اور انسانوں کی بری نظر سے پنا ہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ سورۂ فَلق اور سورۂ ناس نازل ہوئیں ، جب یہ سورتیں نازل ہوئیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دونوں کو اختیار فرما لیا اور دیگر دعاؤں کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء فی الرقیۃ بالمعوّذتین، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۲۰۶۵)
مفتی احمد یارخاں نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشا دفرماتے ہیں کہ بد نظر ی سے بچنے کے لئے یہ آیتِ کریمہ (بھی) اکسیر ہے’’وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(القلم ۵۱، مر اٰۃ المناجیح، کتاب الطب والرقی، الفصل الاول، ۶ / ۱۹۵، تحت الحدیث: ۴۳۲۶)
{وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ:اور میں تمہیں اللّٰہ سے بچا نہیں سکتا ۔} یعنی جس چیز کی طرف میں نے تمہیں اشارہ دیا وہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر فرما دی ہے تو میں تمہیں اس سے بچا نہیں سکتا کیونکہ تدبیر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی ، میں نے اپنا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے ،میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنی اس بات پر بھروسہ نہیں کرتا جس کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے کیونکہ توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنا اسباب چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۲۹۹، صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۹۶۹، ملتقطاً)
اس آیت سے بھی ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنے سے توکل میں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔