Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 69 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّیْۤ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(69)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ:اور جب وہ یوسف کے پاس گئے۔} یعنی جب وہ سارے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس گئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنے بھائی بنیامین کو لے آئے ہیں توحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ تم نے بہت اچھا کیا ،پھر انہیں عزت کے ساتھ مہمان بنایا اور جا بجا دستر خوان لگائے گئے اور ہر دستر خوان پر دو دو بھائیوں کو بٹھایا گیا ۔بنیامین اکیلے رہ گئے تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے ’’اگر میرے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہوتے تو وہ مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ‘‘ تمہارا ایک بھائی اکیلا رہ گیا ہے، یہ فرما کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کو اپنے دستر خوان پر بٹھالیا اور اس سے فرمایا ’’ تمہارے فوت شدہ بھائی کی جگہ میں تمہارا بھائی ہوجاؤں تو کیا تم پسند کرو گے؟ بنیامین نے کہا ’’ آپ جیسا بھائی کس کو مُیَسَّر آئے گا! لیکن حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرزند اور (حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ) راحیل کا نورِنظر ہونا آپ کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے! یہ سن کرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رو پڑے اور بنیامین کو گلے سے لگایا اور فرمایا: بیشک میں تیرا حقیقی بھائی یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوں ، تم اس پر غمگین نہ ہونا جو یہ کررہے ہیں ، بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں بھلائی کے ساتھ جمع فرما دیا اور ابھی اس راز کی اپنے بھائیوں کو اطلاع نہ دینا ۔یہ سن کر بنیامین فرطِ مُسَرّت سے بے خود ہوگئے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگے’’ اب میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ والد صاحب کو میری جدائی کا بہت غم پہنچ چکا ہے، اگر میں نے تمہیں بھی روک لیا تو انہیں اور زیادہ غم ہوگا اور آپ کو روکنے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت بھی نہیں کہ آپ کی طرف کوئی غیر پسندیدہ بات منسوب کر دی جائے۔ بنیامین نے کہا ’’اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۳۸-۵۳۹)