Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 93 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ-وَ اْتُوْنِیْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِیْنَ(93)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا:میرا یہ کرتا لے جاؤ۔} جب تعارف ہو گیا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا ۔ اُنہوں نے کہا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی کے غم میں روتے روتے اُن کی بینائی بحال نہیں رہی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا یہ کرتا لے جاؤ جو میرے والد ماجد نے تعویذ بنا کر میرےگلے میں ڈال دیا تھا اوراسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ تاکہ جس طرح وہ میری موت کی خبر سن کر غمزدہ ہوئے اسی طرح میری بادشاہت کا نظارہ کر کے خوش ہو جائیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۵۴۴، ملخصاً)
بزرگوں کے تبرکات بھی دافعِ بلا ، مشکل کشا ہوتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات اور ان کے مبارک جسموں سے چھوئی ہوئی چیزیں بیماریوں کی شفا، دافع بلا اور مشکل کشا ہوتی ہیں ۔ قرآن و حدیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں تو ایسے واقعات بکثر ت مل جائیں گے جن میں بزرگانِ دین کے مبارک جسموں سے مَس ہونے والی چیزوں میں شفا کا بیان ہو۔ سرِ دست 2واقعات یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1)…حضرت اُمِّ جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں’’میں نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قربانی کے دن بطنِ وادی کی جانب سے جمرۂ عقبہ کی رَمی فرمائی، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمی سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو خَثْعَمْ قبیلے کی ایک خاتون گود میں بچہ اٹھائے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے گھرانے میں ایک ہی بچہ باقی رہ گیا ہے اور اس پر بھی کچھ اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بولتا نہیں ۔ یہ سن کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تھوڑا سا پانی لاؤ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے پانی پیش کر دیا، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پانی سے دونوں ہاتھوں کو دھویا، منہ میں پانی لے کر کلی کی اور اس عورت سے فرمایا ’’یہ پانی اس بچے کو پلا دیا کرو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دیا کرو اور اللّٰہ تعالیٰ سے ا س کے لئے شفا طلب کرو۔ حضرت اُمِّ جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں نے اس عورت سے ملاقات کی اور اس سے کہا ’’تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ اس عورت نے جواب دیا ’’یہ پانی بچے کی صحت کے لئے ہے اس لئے میں نہیں دے سکتی۔ حضرت ام جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں’’دوسرے سال جب اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے بچے کا حال پوچھا۔ اس نے جواب دیا ’’وہ بچہ بہت تندرست، ذہین اور عقل مند ہو گیا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الطب، باب النشرۃ، ۴ / ۱۲۹، الحدیث: ۳۵۳۲)
(2)… اُمّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے پاس حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چند موئے مبارک تھے جنہیں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے چاندی کی ایک ڈبیہ میں رکھا ہو اتھا۔ لوگ جب بیمار ہوتے تو وہ ان گیسوؤں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا طلب کرتے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گیسوؤں کو پانی کے پیالے میں رکھ کر وہ پانی پی جاتے تو انہیں شفا مل جایا کرتی۔(عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، ۱۵ / ۹۴، تحت الحدیث: ۵۸۹۶)