Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 98 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُوْا یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِـٕیْنَ(97)قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(98)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:بیٹوں نے کہا۔} یعنی جب حق بات ظاہر اور واضح ہو گئی تو بیٹوں نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کی ’’اے ہمارے باپ! آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ سے ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بے شک ہم خطاکار ہیں ۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۹۸۰)
{قَالَ:فرمایا۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں کے لئے دعا اور استغفار کو سحری کے وقت تک مؤخر فرمایا کیونکہ یہ وقت دعا کے لئے سب سے بہترین ہے اور یہی وہ وقت ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں ، چنانچہ جب سحری کا وقت ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے صاحبزادوں کے لئے دعا کی، دعا قبول ہوئی اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی فرمائی گئی کہ صاحبزادوں کی خطا بخش دی گئی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد ماجد کو اور اُن کے اہل واولاد کوبلانے کے لئے اپنے بھائیوں کے ساتھ 200 سواریاں اور کثیر سامان بھیجا تھا ، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہلِ خانہ کو جمع کیا جو کل مرد وعورت 72 یا73 افراد تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن میں یہ برکت فرمائی کہ ان کی نسل اتنی بڑھی کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ ان سے صرف 400 سال بعد کا ہے، الحاصل جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر کے بادشاہِ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکری اور بہت سے مصری سواروں کو ہمراہلے کر آپ اپنے والد صاحب کے استقبال کے لئے صدہا ریشمی پھریرے اُڑاتے اور قطاریں باندھے روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند یہودا کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے ،جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظر لشکرپر پڑی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ صحرا زَرق بَرق سواروں سے پُر ہورہا ہے تو فرمایا ’’ اے یہودا! کیا یہ فرعونِ مصر ہے جس کا لشکر اس شان وشوکت سے آرہا ہے ؟یہودا نے عرض کی’’ نہیں ،یہ حضور کے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو متعجب دیکھ کر عرض کیا ’’ہوا کی طرف نظر فرمایئے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشی میں شرکت کے لئے فرشتے حاضر ہوئے ہیں جو کہ مدتوں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے غم کی وجہ سے روتے رہے ہیں ۔ فرشتوں کی تسبیح ، گھوڑوں کے ہنہنانے اور طبل و بگل کی آوازوں نے عجیب کیفیت پیدا کردی تھی ۔یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی ۔جب دونوں حضرات یعنی حضرت یعقوب اور حضرت یوسف عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریب ہوئے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا کہ آپ توقف کیجئے اور والد صاحب کو پہلے سلام کا موقع دیجئے، چنانچہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُذْھِبَ الْاَحْزَانِ‘‘ یعنی اے غم و اَندو ہ کے دور کرنے والے سلام ! اور دونوں صاحبوں نے اُتر کر معانقہ کیا اور مل کر خوب روئے، پھر اس مزین رہائش گاہ میں داخل ہوئے جو پہلے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے استقبال کے لئے نفیس خیمے وغیرہ نصب کرکے آراستہ کی گئی تھی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۴۴-۴۵، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۸-۹۹، ۴ / ۸۰-۸۱، ملتقطاً) یہ داخل ہونا حدودِ مصر میں تھا اس کے بعد دوسری بار داخل ہونا خاص شہر میں ہے جس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔