Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 30 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْؕ-قَالُوْا خَیْرًاؕ-لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌؕ-وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ(30)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا:اور متقی لوگوں سے کہاجائے ۔} یعنی جب ایمانداروں سے کہا جائے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرکیا نازل فرمایا؟ تو وہ ا س کے جواب میں کہتے ہیں ’’ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے قرآن شریف نازل فرمایا جو تمام خوبیوں کا جامع اور حسنات و برکات کا منبع اور دینی و دنیوی اور ظاہری وباطنی کمالات کا سرچشمہ ہے۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰،۵ / ۲۹) شانِ نزول: عرب کے قبائل حج کے دنوں میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حال کی تحقیق کے لئے مکہ مکرمہ قاصد بھیجتے تھے ،یہ قاصد جب مکہ مکرمہ پہنچتے توشہر کے داخلی راستوں پر انہیں کفار کے کارند ے ملتے (جیسا کہ سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے) اُن سے یہ قاصد رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال دریافت کرتے تو وہ چونکہ لوگوں کوبہکانے پر مامور ہی ہوتے تھے ا س لئے ان میں سے کوئی سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ساحر کہتا، کوئی کاہن، کوئی شاعر، کوئی کذّاب، کوئی مجنون کہتا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ تم ان سے نہ ملنا یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ اس پر قاصد کہتے کہ اگر ہم مکہ مکرمہ پہنچ کر اُن سے ملے بغیر اپنی قوم کی طرف واپس ہوں تو ہم برے قاصد ہوں گے اور ایسا کرنا قاصد کے منصبی فرائض کا ترک اور قوم کی خیانت ہوگی۔ ہمیں تحقیق کے لئے بھیجا گیا ہے ا س لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اپنے اور بیگانوں سب سے اُن کے حال کی تحقیق کریں اور جو کچھ معلوم ہو اس میں کوئی کمی بیشی کئے بغیراپنی قوم کو مطلع کریں ۔اس خیال سے وہ لوگ مکہ مکرمہ میں داخل ہو کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بھی ملتے تھے اور اُن سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حال کی تحقیق کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم انہیں تمام حال بتاتے تھے اورحضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حالات ، کمالات اور قرآن کریم کے مَضامین سے مطلع کرتے تھے ان کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۲۰)
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا:جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی میں اچھے عمل کئے تو ان کے لئے آخرت میں اچھا اجر ہے۔اچھے اجر سے مراد ثوابِ عظیم ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اچھے اجر سے مراد یہ ہے کہ ان کی نیکیوں کا ثواب دس سے لے کر سات سوگنا تک بڑھا دیا جائے گایا بے حساب اجر عطا کیاجائے گا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے انہیں دنیا میں بھی اچھا اجر ملے گا۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۱-۲۰۲، ملخصاً)
دنیا میں نیک مسلمانوں کا اجر:
دنیا میں حاصل ہونے والے اچھے اجر کی ایک صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں ان کی محبت اور عقیدت پیدا کر دے گا، مسلمان ان کے فضائل و مناقب بیان کریں گے اور ان کی عزت و تعظیم کریں گے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۲، ملخصاً)
اولیاءِ کرام کے حوالے سے بطورِ خاص اس بات کا مشاہدہ ہے اور قرآنِ مجید میں ہی ایک اور مقام پرنیک مسلمانوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘(مریم:۹۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں )محبت پیدا کردے گا ۔
اسی طرح حدیثِ پاک میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں ) میں ان کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
دنیا میں اچھا اجر ملنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں پاکیزہ زندگی ، فتح و کامیابی اور وسیع رزق وغیرہ نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۲۱۸، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف چھپانا کن کا طریقہ ہے؟
آیت ِ مبارکہ کے مضمون اور اس کے شانِ نزول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کو چھپانا کفار کا طریقہ جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان بیان کرنا صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ ہے۔