Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 44 ≫ Translation ≫ Tafsir
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِؕ-وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(44)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ:اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا تاکہ آپ اس کتاب میں موجود اَحکام ،وعدہ اور وعید کو اپنے اَقوال اور اَفعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کر دیں ۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۷۹، الجزء العاشر)
حدیث پاک بھی حجت ہے:
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی تفسیر ’’اَلْجَامِعُ لِاَحْکَامِ الْقُرْآنْ‘‘ کی ابتدا میں فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں موجود مُجمل چیزوں کو بیان کرنے، مشکل کی تفسیر کرنے اور کئی اِحتمال رکھنے والی چیزوں کی تحقیق کرنے کا منصب اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمایا تاکہ رسالت کی تبلیغ کے ساتھ آپ کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہو جائے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰیَ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد قرآنِ پاک کے معانی کو اَخذ کرنے اور قرآنِ پاک کے اصول کی طرف اشارہ کرنے کی خدمت علماء کے سپرد فرمائی تاکہ وہ قرآنِ پاک کے الفاظ میں غورو فکرکر کے ان کی مراد جان جائیں ،یوں علماء دیگر امتیوں سے ممتاز ہو گئے اور اِجتہاد کا ثواب ملنے کی خصوصیت بھی انہیں حاصل ہوئی، خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک اصل ہے اور حدیثِ پاک اس کا بیان ہے اور علماء کا اِستنباط ا س کی وضاحت ہے۔(قرطبی، خطبۃ المصنّف، ۱ / ۲۴، الجزء الاوّل)اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کی طرح حدیث پاک بھی معتبر، قابلِ قبول اور لائقِ عمل ہے کیونکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک میں موجود احکام وغیرہ کو اپنے اقوال اور افعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کرنے کا منصب عطا فرمایا ہے اور حدیث نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال اور اَفعال ہی کا تو نام ہے ۔اس کے علاوہ اور آیات بھی حدیثِ پاک کے حجت ہونے پر دلالت کرتی ہیں ،جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(سورۂ جمعہ :۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللّٰہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت کے علاوہ بکثرت آیات ایسی ہیں جن میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانا جائے یہاں تک کہ واضح طور فرما دیا کہ’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(النساء:۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اسی صورت ممکن ہے جب ان کے قول اور فعل کی پیروی کی جائے ، اگر یوں نہ کیا جائے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کا جو مقصد ہے وہی فوت ہو جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا ’’وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘(حشر:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ سخت عذاب دینے والاہے۔
عقلی طور پر بھی دیکھا جائے تو حدیثِ پاک کو حجت مانے بغیر چارہ ہی نہیں کیونکہ قرآنِ پاک میں اسلام کے بنیادی اَحکام جیسے نماز ،روزہ ،حج اور زکوٰۃ کا اِجمالی بیان کیا گیا ہے ، ان پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب حدیث پاک پر عمل کیا جائے کیونکہ ان تمام احکام کی تفصیل کا بیان صرف اَحادیث میں ہے۔
{وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ:اورتاکہ وہ غوروفکر کریں ۔} یعنی قرآن نازل کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور ان میں موجود حقائق اور عبرت انگیز چیزوں پر مطلع ہوں اور اُن کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے سابقہ امتیں عذاب میں مبتلا ہو گئیں ۔ (ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۶۸، ملخصاً)
قرآنِ کریم میں غورو فکر اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے:
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں غورو فکر کرنا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے لہٰذا قاری سے عالم باعمل افضل ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھ کر اور اس میں بیان کئے گئے احکام، عبرت انگیز واقعات،موت کے وقت کی آفات، گناہگاروں اور کافروں پر ہونے والے جہنم کے عذابات اور نیک مسلمانوں کو ملنے والے جنت کے انعامات وغیرہ میں غورو فکر کرتے ہوئے ا س کی تلاوت کرے تاکہ اسے قرآن کریم کی برکتیں اچھی طرح حاصل ہوں اور اس کے دل پر اگر گناہوں کی سیاہی غالب آ چکی ہو تو وہ بھی صاف ہو جائے ۔حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس کی جِلا(یعنی صفائی) کس چیز سے ہوگی؟ ارشاد فرمایا ’’کثرت سے موت کو یادکرنے اور تلاوتِ قرآن سے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
حضرت ابراہیم خواص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :دل کی دوا پانچ چیزیں ہیں ۔ (1) غورو فکر کرتے ہوئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا، (2) بھوکا رہنا، (3) رات میں نوافل ادا کرنا، (4) سَحری کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرنا، (5) نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۳۸)