banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 7 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِؕ-اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(7)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ تم اس تک نہ پہونچتے مگر ادھ مرے ہو کر بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ جانورتمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے ،بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ:اور وہ جانورتمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔} یعنی وہ جانور تمہارا سامان اور سفر کے دوران کام آنے والے آلات اس شہر تک لے جاتے ہیں  جہاں  تم اپنی جان کو مشقت میں  ڈالے بغیر نہیں  پہنچ سکتے، بیشک تمہارا رب نہایت مہربان، رحم والا ہے کہ اس نے تمہارے لئے یہ نفع دینے والی چیزیں  پیدا کی ہیں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۱۴)

جانور پر سواری کرنا اور بوجھ لادنا جائز ہے:

            ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جانوروں  پر سواری کرنا اور ان پر سامان لادنا جائز ہے البتہ جتنی ان میں  بوجھ برداشت کرنے کی قوت ہو اسی حساب سے ان پر سامان لادا جائے۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۵۴، الجزء العاشر)

جانوروں  سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیمات:

             کثیر احادیث میں  جانوروں  کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آنے ، ان کے لئے آسانی کرنے اور ان کے دانہ پانی کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب تم سرسبزی کے زمانے میں  سفر کرو تو زمین سے اونٹوں  کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشکی کے سال میں  سفر کرو تو زمین سے جلدی گزرو (تاکہ اونٹ کمزور نہ ہو جائیں  ) اور جب تم رات کے وقت آرام کے لئے اترو تو راستے سے الگ اترو کیونکہ وہ جانوروں  کے راستے اور رات میں  کیڑے مکوڑوں  کے ٹھکانے ہیں۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب مراعاۃ مصلحۃ الدواب فی السیر۔۔۔ الخ، ص۱۰۶۳، الحدیث: ۱۷۸(۱۹۲۶))

            حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں ، حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان بھی کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت اگاتا ہے، اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کچھ کھالیں  تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اکل منہ، ۲ / ۸۵، الحدیث: ۲۳۲۰)

             حضرت سہل بن حَنْظَلِیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو ارشاد فرمایا’’ ان بے زبان جانوروں  کے بارے میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، ان پر اچھی طرح سوار ہوا کرو اور انہیں  اچھی طرح کھلایا کرو۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم، ۳ / ۳۲، الحدیث: ۲۵۴۸)

            حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (جانوروں  کے) چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا۔ مزید فرماتے ہیں ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے منہ کو داغا گیا تھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اسے داغا ہے ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ ووسمہ فیہ، ص۱۱۷۱،۱۱۷۲ الحدیث: ۱۰۶ (۲۱۱۶)، ۱۰۷(۲۱۱۷))

            حضرت مسیب بن دارم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ انہوں  نے ایک شتربان کو مارا اور ا س سے فرمایا ’’ تم نے اپنے اونٹ پرا س کی طاقت سے زیادہ سامان کیوں  لادا ہے؟( الطبقات الکبری لابن سعد، تسمیۃ من نزل البصرۃ من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن کان بعدہم۔۔۔ الخ، الطبقۃ الاولی من الفقہاء المحدثین۔۔۔ الخ، المسیب بن دارم، ۷ / ۹۱)