Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 94 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(94)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ:اورتم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤ۔} اس
سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے عہد اور قسمیں توڑنے سے منع فرمایا تھا ،اب
یہاں دوبارہ ا س کام سے تاکیداً منع فرمانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معاہدہ
اور قسمیں پورا کرنے کا معاملہ انتہائی اہم ہے کیونکہ عہد کی خلاف ورزی میں دین و
دنیا کا نقصان ہے اور عہد پورا کرنے میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ آیت کاخلاصہ
یہ ہے کہ تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤورنہ
تمہارے قدم اسلام کے صحیح راستے پرثابت قدمی کے بعد پھسل جائیں گے اور تم خود عہد
کی خلاف ورزی کرنے یا دوسروں کو عہد پورا کرنے سے روکنے کی وجہ سے دنیا میں عذاب
کا مزہ چکھو گے کیونکہ تم عہد توڑ کر گناہ کا ایک طریقہ رائج کرنے کا ذریعہ بنے
ہوگے اور تمہارے لئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔(جلالین
مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۴، ۴ / ۱۰۹۰) بعض مفسرین کے نزدیک ا س
آیت میں بیعتِ اسلام کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ثابت قدمی کے بعد قدموں کے
پھسل جانے کی وعید اسی کے مناسب ہے۔( خازن، النحل، تحت
الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۴۱)
عہد کی پاسداری
کے3 واقعات:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ
اسلام میں عہد کی پاسداری کی بہت اہمیت ہے، اسی مناسبت سے یہاں عہد کی پاسداری سے
متعلق 3 واقعات ملاحظہ ہوں
(1)…صلح حدیبیہ کے موقع
پر حضرت ابو جندل رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ بیڑیوں
میں بندھے ہوئے کسی طرح حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے توان کے باپ سہیل بن عمرو نے
ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور اس کے بغیر معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ جب
حضرت ابو جندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو معلوم ہوگیا کہ اب وہ
کفار کی طرف دوبارہ لوٹا دیئے جائیں گے تو گڑگڑا کر مسلمانوں سے فریاد کرنے لگے ۔
چونکہ کفار سے معاہدہ ہو چکا تھا اس لئے حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے موقع کی نزاکت
کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابوجندل رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللّٰہ تعالیٰ
تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ نکالے گا۔ ہم صلح کا
معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے۔ غرض حضرت ابوجندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اسی طرح پھر مکہ واپس
جانا پڑا۔( سیرت ابن ہشام، امر الحدیبیۃ فی آخر سنۃ ست وذکر بیعۃ
الرضوان۔۔۔الخ، علیّ یکتب شروط الصلح،ص۴۳۲، ملخصاً)
(2)… حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں اور
حضرت حُسَیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کہیں سے آرہے تھے کہ
راستے میں کفار نے ہم دونوں کو روک کر کہا ’’ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے
ہو۔ ہم نے جواب دیا: ہمارا بدر جانے کا ارادہ نہیں ہم تو مدینے جا رہے ہیں ۔ کفار
نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم صرف مدینے جائیں گے اور جنگ میں رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ شریک نہ ہوں گے ۔
اس کے بعد جب ہم دونوں (بدر کے میدان میں ) بارگاہِ رسالت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضورِ
اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم دونوں واپس چلے جاؤ، ہم ہر حال میں کفار سے
کئے ہوئے عہد کی پابندی کریں گے اور ہمیں کفار کے مقابلے میں صرف اللّٰہ تعالیٰ کی مدد درکار ہے۔(مسلم، کتاب الجہاد والسیر،
باب الوفاء بالعہد، ص۹۸۸، الحدیث: ۹۸(۱۷۸۷))
(3)…حضرت سلیم بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت امیر
معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ اور رومیوں کے درمیان ایک
معاہدہ تھا، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے شہروں کی طرف تشریف لے گئے تاکہ جب معاہدہ
ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں لیکن اچانک ایک آدمی کو چارپائے یا گھوڑے پر دیکھا
وہ کہہ رہا تھا: اللّٰہ اکبر! عہد پورا کرو، عہد شکنی
نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ شخص حضرت عمرو بن عَبْسَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ حضرت امیر
معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ
میں نے نبی اکرم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے
سنا ہے ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ ا س معاہدے کو نہ توڑے اور نہ باندھے
جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا وہ برابری کی بنیاد پر اس کی طرف پھینک نہ
دے۔ راوی فرماتے ہیں ’’یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔(ترمذی، کتاب السیر، باب ما
جاء فی الغدر، ۳ / ۲۱۲، الحدیث:۱۵۸۶)