Home ≫ ur ≫ Surah An Naml ≫ ayat 65 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(65)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا تھا،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور آیت کا معنی یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتاہے، اس کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور قیامت قائم ہونے کا وقت بھی اسے ہی معلوم ہے اورآسمانوں میں جتنے فرشتے ہیں اور زمین میں جتنے انسان ہیں وہ نہیں جانتے کہ انہیں دوبارہ کب اٹھایا جائے گا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۴۱۷، مدارک، النمل،تحت الآیۃ: ۶۵، ص۸۵۳، ملتقطاً)
غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے سے متعلق اہم کلام:
اس آیت میں اور اس کے علاوہ کئی آیات میں غیب کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے، اسی مناسبت سے یہاں ہم علمِ غیب سے متعلق ایک خلاصہ ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ آیات،احادیث اور اقوالِ علماء جن میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے ا ن کا اصل مفہوم واضح ہو اور علم غیب سے متعلق اہلِ حق کے اصل عقیدے کی وضاحت ہو۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علمِ غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہونا بے شک حق ہے اور کیوں نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ-‘‘
تم فرمادو کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ۔‘‘
اور اس سے مراد وہی علمِ ذاتی اورعلمِ محیط (یعنی ہر چیز کا علم) ہے کہ وہی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت اور اس سے مخصوصہیں ۔ علمِ عطائی کہ دوسرے کا دیا ہوا ہواور علمِ غیر محیط کہ بعض اَشیاء سے مطلع ہو اور بعض سے ناواقف ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے ہو ہی نہیں سکتا،اس سے مخصوص ہونا تو دوسرا درجہ ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے علومِ غیب غیر محیط کا اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنا بھی قطعاً حق ہے اور کیوں نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ - ‘‘(آل عمران:۱۷۹)
اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔
اور فرماتا ہے:
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(الجن:۲۶،۲۷)
اللہ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتاسوااپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
اور فرماتا ہے:
’’ وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴)
یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
اور فرماتا ہے:
’’ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ-‘‘( یوسف: ۱۰۲)
یعنی اے نبی !یہ غیب کی باتیں ہم تم کو مخفی طور پر بتاتے ہیں ۔
حتّٰی کہ مسلمانوں کو فرماتا ہے:
’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘(بقرہ: ۳ )
غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔
ایمان تصدیق (کا نام) ہے اور تصدیق علم ہے، (تو) جس شے کا اصلاً علم ہی نہ ہو اس پر ایمان لانا کیونکر ممکن (لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمانوں کو غیب کا علم حاصل ہے)، تفسیر کبیر میں ہے: ’’لَایَمْتَنِعُ اَنْ نَّقُوْلَ نَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ مَالَنَا عَلَیْہِ دَلِیْلٌ‘‘ یہ کہنا کچھ منع نہیں کہ ہم کو اس غیب کا علم ہے جس میں ہمارے لیے دلیل ہے۔( تفسیرِ کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۷۴)
نسیم الریاض میں ہے: ’’لَمْ یُکَلِّفْنَااللہُ الْاِیْمَانَ بِالْغَیْبِ اِلَّا وَ قَدْ فَتَحَ لَنَا بَابَ غَیْبِہٖ‘‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا جبھی حکم دیا ہے کہ اپنے غیب کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔( نسیم الریاض، فصل و من ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب۔۔۔الخ، ص۱۵۱، فتاویٰ رضویہ، ۲۹ / ۴۳۸-۴۳۹، ملخصاً)
علم ِغیب سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّہْ بِالْمَادَّۃِ الْغَیْبِیَّہْ‘‘(علمِ غیب کے مسئلے کا دلائل کے ساتھ تفصیلی بیان) اور فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود رسائل ’’اِزَاحَۃُ الْعَیبْ بِسَیْفِ الْغَیبْ‘‘(علمِ غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اوربدمذہبوں کا رَد) اور ’’خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ‘‘(علمِ غیب سے متعلق ۱۲۰دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب) کا مطالعہ فرمائیں ۔