Home ≫ ur ≫ Surah An Naml ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًاؕ-سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(7)فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(8)یٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(9)وَ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ- اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ(10)اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(11)وَ اَدْخِلْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ- فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(12)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖ: جب موسیٰ نے اپنی گھر والی سے کہا۔} یہاں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جارہا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5 آیات میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَدْیَن سے مصر کی طرف جا رہے تھے، دورانِ سفر یوں ہواکہ رات کے وقت کافی اندھیرا اور برف باری ہونے کی وجہ سے سخت سردی تھی،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام راستہ بھی بھول گئے تھے اور اسی رات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ مطہرہ کودردِ زِہ (یعنی بچے کی ولادت کا درد) بھی شروع ہو گیا۔ اسی حال میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دور سے ایک روشنی ملاحظہ فرمائی۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی گھر والی سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے، تم یہیں ٹھہرو، میں ا س طرف جاتا ہوں اور تھوڑی دیر میں تمہارے پاس راستے کی کوئی خبر لاتا ہوں یا اس میں سے کوئی چمکتی ہوئی چنگاری لے آؤں گا تاکہ تم اس سے گرمی حاصل کرو اور سردی کی تکلیف سے امن پاؤ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس آگ کے پاس آئے تو انہیں ندا کی گئی کہ اُس موسیٰ کوبرکت دی گئی جو اِس آگ کی جگہ میں ہے اور جو اِس آگ کے آس پاس فرشتے ہیں انہیں برکت دی گئی اور اللہ تعالٰی پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔اے موسیٰ !بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں جوعزت والا حکمت والاہے اور اپنا عصا زمین پرڈال دو۔چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کے حکم سے عصا ڈال دیا تو وہ سانپ بن گیا۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے لہراتے ہوئے دیکھا توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوف کی وجہ سے پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:اے موسیٰ !ڈرو نہیں ، بیشک میری بارگاہ میں سانپ یا کسی اور چیز سے رسول ڈرتے نہیں ، جب میں انہیں امن دوں تو پھر کسی چیز کا کیا اندیشہ ہے،لیکن جس شخص نے کوئی ز یادتی کی اس کو ڈر ہوگا یہاں تک کہ وہ اس سے توبہ کر لے اور برائی کے بعد اپنے عمل کونیکی سے بدل دے تو بیشک میں بخشنے والا مہربان ہوں ، توبہ قبول فرماتا ہوں اور بخش دیتا ہوں ۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دوسری نشانی دکھائی گئی اور فرمایا گیا’’ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر باہر نکالوتووہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس وقت صُوف کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تووہ سورج کی شعاعوں کی طرح چمک رہا تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ بھی فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجتے وقت اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نو نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، بیشک وہ فرعونی نافرمان لوگ ہیں اور کفر و سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷-۱۲، ۳ / ۴۰۱-۴۰۲، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۳۲۴، ملتقطاً)
{یٰمُوْسٰى: اے موسیٰ۔} یاد رہے کہ اس ندا سے اور اِس واقعے سے ولایت و معرفت کے بہت سے اَسرار اَخذ کئے گئے ہیں۔
{ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ: نو نشانیوں میں سے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو نونشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا۔(2)ید ِبَیضا۔(3) بولنے میں دِقّت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللہ تعالٰی نے اسے دور فرمادیا۔(4) دریاکا پھٹنا اوراس میں رستے بننا۔ (5)طوفان۔(6) ٹڈی۔(7) گُھن۔(8) مینڈک۔(9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۹۴) اس رکوع میں پہلی دو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ، جبکہ ان میں سے آخری6 نشانیوں کا مُفَصّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گزر چکاہے۔