banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 119 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًاﭤ(119)

ترجمہ: کنزالایمان قسم ہے میں ضرورانھیں بہکادوں گا اور ضرور انہیں آرزوئیں دلاؤں گا اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ چوپایوں کے کان چیریں گے اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزبدل دیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے وہ صریح ٹوٹے میں پڑا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا اور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو یہ ضرور جانوروں کے کان چیریں گے اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تویہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے تووہ کھلے نقصان میں جاپڑا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَاُضِلَّنَّهُمْ: اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا۔} یہ شیطان کا کہنا تھا کہ میں ضرور لوگوں کو طرح طرح کی چیزوں کی، کبھی لمبی عمر کی، کبھی لَذّات ِدنیا کی، کبھی باطل خواہشات اور کبھی اور قسم کی امیدیں دلاؤں گا اور وہ ان امیدوں کی دنیا میں پھرتے رہیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل رہیں گے۔

 لمبی امید رکھنے کی مذمت:

             شیطان مردود کا بڑا مقصد لوگوں کو بہکانا اور عملی اعتبار سے ایساکر دینا ہے کہ نجات و مغفرت کا کوئی راستہ باقی نہ رہے، اس کے لئے وہ مختلف طریقے اپناتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل رکھتا ہے، حتّٰی کہ اسی آس امید پرجیتے جیتے اچانک وہ وقت آجاتا ہے کہ موت اپنے دردناک شکنجے میں کَس لیتی ہے پھر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ،ناچار اپنے کئے اعمال کے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ فی زمانہ لوگوں کی اکثریت موت کو بھول کر دنیا کی لمبی امیدوں میں کھوئی ہوئی ہے۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ لمبی زندگی کی امید دل میں باندھ لینا جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر دنیا کی محبت کی وجہ سے۔ جہالت اور نادانی تو یہ ہے کہ آدمی اپنی جوانی پر بھروسہ کر بیٹھے اور بڑھاپے سے پہلے مرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے، اسی طرح آدمی کی ایک نادانی یہ ہے کہ تندرستی کی حالت میں ناگہانی موت کو ناممکن سمجھے ۔لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ ان باتوں میں غور کرے’ ’کیا لاکھوں بچے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے ہی راہیِ عدم نہ ہوئے؟ کیا ہزاروں انسان چڑھتی جوانی میں موت سے ہم آغوش نہ ہوئے؟ کیا سینکڑوں نوجوان بھری جوانی میں لقمۂ اَجَل نہ بنے؟ کیا دَسْیوں نوجوان بیماریوں کا شکار نہ ہوئے؟ ان باتوں میں غورو فکر کے ساتھ ایک اور بات دل میں بٹھا لے کہ موت اس کے اختیار میں نہیں کہ جب یہ چاہے گا تو اسی وقت آ ئے گی، اس طرح جوانی یا کسی اور چیز پر بھروسہ کرنا خود ہی ایک نادانی نظر آئے گی۔ لمبی زندگی کی امید کی دوسری وجہ دنیا کی محبت ہے، انسان اپنے دل کو تَسلّی دیتا رہتا ہے کہ ابھی تو زمانہ پڑا ہے، ابھی کس نے مرنا ہے میں پہلے یہ مکان بنا لوں ، فلاں کاروبار شروع کر لوں ، اچھی گاڑی خرید لوں ، سہولیات سے اپنی زندگی بھر لوں جب بڑھاپا آئے گا تو اللہ اللہ کرنے لگ جائیں گے اس طرح ہر کام سے دس کام نکالتا چلا جاتا ہے حتّٰی کے ایک دن پیغامِ اجل آ پہنچتا ہے اب پچھتانے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ اس میں مبتلا شخص کو چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقیقت کے بارے میں معلومات حاصل کرے کیونکہ جس پر دنیا کی حقیقت آشکار ہو جائے کہ دنیا کی لذت چند روزہ ہے اور موت کے ہاتھوں اسے ایک دن ختم ہونا ہی ہے وہ اسے عزیز نہیں رکھ سکتا۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل دہم، اسباب طول امل، ۲ / ۹۹۵-۹۹۶، ملخصاً)

دِلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے

باغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے

{وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ: اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا۔} یہ شیطان کا قول ہے کہ اس نے کہا میں لوگوں کو حکم دوں گا کہ وہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان چیریں یا اس طرح کی دوسری حرکتیں کریں۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا کہ اونٹنی جب پانچ مرتبہ بچہ جن دیتی تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور اس سے نفع اٹھانا اپنے اوپر حرام کرلیتے اور اس کا دودھ بتوں کے لئے وقف کر دیتے اور اس کو بَحِیرہ کہتے تھے۔ شیطان نے اُن کے دِل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ ایسا کرنا عبادت ہے۔

 اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلیاں کرنے کا شرعی حکم:

            شیطان نے ایک بات یہ کہی کہ وہ لوگوں کو حکم دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ضرور بدلیں گے۔

 یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف ِ شرع تبدیلیاں حرام ہیں۔ احادیث میں اس کی کافی تفصیل موجود ہے۔ ان میں سے4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کا لباس پہنے۔(ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، ۴ / ۸۳، الحدیث: ۴۰۹۸)

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں ’ ’نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زَنانہ مَردوں اور مردانی عورتوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’انہیں اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔(بخاری، کتاب اللباس، باب اخراج المتشبّہین بالنساء من البیوت، ۴ / ۷۴، الحدیث: ۵۸۸۶)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’عورتوں سے مُشابہت اختیار کرنے والے مرد اور مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتیں صبح شام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے غضب میں ہوتے ہیں۔(شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۵۳۸۵)

(4)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی اور بدن گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی۔(مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ۔۔۔ الخ، ص۱۱۷۵، الحدیث: ۱۱۹(۲۱۲۴))