banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 3 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَ  اِنْ  خِفْتُمْ  اَلَّا  تُقْسِطُوْا  فِی  الْیَتٰمٰى  فَانْكِحُوْا  مَا  طَابَ  لَكُمْ  مِّنَ  النِّسَآءِ  مَثْنٰى  وَ  ثُلٰثَ  وَ  رُبٰعَۚ-فَاِنْ  خِفْتُمْ  اَلَّا  تَعْدِلُوْا  فَوَاحِدَةً  اَوْ  مَا  مَلَكَتْ  اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ  اَدْنٰۤى  اَلَّا  تَعُوْلُوْاﭤ(3)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر تمہیں اس بات کا ڈرہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو صرف ایک (سے نکاح کرو) یا لونڈیوں (پر گزارا کرو) جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اِنْ  خِفْتُمْ: اور اگر تمہیں ڈر ہو۔} اِس آیت کے معنی میں چنداقوال ہیں۔

(1)… امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ پہلے زمانہ میں مدینہ کے لوگ اپنی زیرِ سرپرستی یتیم لڑکیوں سے اُن کے مال کی وجہ سے نکاح کرلیتے حالانکہ اُن کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی تھی، پھر اُن یتیم لڑکیوں کے حقوق پورے نہ کرتے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتے اور اُن کے مال کے وارث بننے کے لئے اُن کی موت کے منتظر رہتے، اِس آیت میں اُنہیں اِس حرکت سے روکا گیا۔ (صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳،۲ / ۳۵۹)

(2)… دوسرا قول یہ ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی کرنے سے توناانصافی ہوجانے کے ڈرسے گھبراتے تھے لیکن زنا کی پرواہ نہ کرتے تھے، اِنہیں بتایا گیا کہ اگر تم ناانصافی کے اندیشہ سے یتیموں کی سرپرستی سے گریز کرتے ہو تو زنا سے بھی خوف کرو اور اُس سے بچنے کے لئے جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں اُن سے نکاح کرو اور حرام کے قریب مت جاؤ۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۸۵)

(3)… تیسرا قول یہ ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی میں تو ناانصافی کرنے سے ڈرتے تھے لیکن بہت سے نکاح کرنے میں کچھ خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، اُنہیں بتایا گیا کہ جب زیادہ عورتیں نکاح میں ہوں تو اُن کے حق میں ناانصافی سے بھی ڈرو جیسے یتیموں کے حق میں ناانصافی کرنے سے ڈرتے ہو اور اُتنی ہی عورتوں سے نکاح کرو جن کے حقوق ادا کرسکو۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ص۲۰۹)

(4)… حضرت عِکْرمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کیا کہ قریش دس دس بلکہ اس سے زیادہ عورتیں کرتے تھے اور جب اُن کابوجھ نہ اٹھا سکتے تو جو یتیم لڑکیاں اُن کی سرپرستی میں ہوتیں اُن کے مال خرچ کر ڈالتے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۳۴۰)

                 اِس آیت میں فرمایا گیا کہ اپنی مالی پوزیشن دیکھ لو اور چار سے زیادہ نہ کرو تاکہ تمہیں یتیموں کا مال خرچ کرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔

نکاح سے متعلق 2 شرعی مسائل:

 (1)…اِس آیت سے معلوم ہوا کہ آزاد مرد کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں تک سے نکاح جائز ہے۔

(2)…تمام امّت کا اِجماع ہے کہ ایک وقت میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا کسی کے لئے جائز نہیں سوائے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور یہ بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیا، اس کی آٹھ بیویاں تھیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِن میں سے صرف چار رکھنا۔ (ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی من اسلم وعندہ نساء۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۲۲۴۱)

{فَاِنْ  خِفْتُمْ  اَلَّا  تَعْدِلُوْا: پھر اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا ڈر ہو۔} آیت میں چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگرکوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔