banner image

Home ur Surah An Noor ayat 16 Translation Tafsir

اَلنُّوْر

An Noor

HR Background

وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ﳓ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ(16)

ترجمہ: کنزالایمان اور کیوں نہ ہوا جب تم نے سنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اُسے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں۔(اے اللہ!) تو پاک ہے،یہ بڑا بہتان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ لَا: اور کیوں  نہ ہوا۔} ارشاد فرمایا کہ جب تم نے بہتان سنا تھا تو اس وقت یہ کیوں  نہ ہوا کہ تم کہہ دیتے : ہمارے لئے درست نہیں  کہ یہ بہتان والی بات کہیں  کیونکہ یہ درست ہوہی نہیں  سکتی۔ یہاں  ایک مسئلہ ذہن نشین رہے کہ کسی نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کی بیوی کافر تو ہوسکتی ہے لیکن بدکار ہرگز نہیں  ہوسکتی کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں  تو ضروری ہے کہ جو چیز کفار کے نزدیک بھی قابلِ نفرت ہو اس سے وہ پاک ہوں  اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری اُن کے نزدیک قابلِ نفرت ہے۔(تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۳۴۳-۳۴۴، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۷۷۳)

 حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر لگائی گئی تہمت واضح بہتان تھی:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر لگائی گئی تہمت کا بہتان ہونا بالکل ظاہر تھا۔ اسی لئے بہتان نہ کہنے والوں  اور توقف کرنے والوں  پر عِتاب ہوا، البتہ چونکہ یہ حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر کا معاملہ تھا اس لئے آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خاموشی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے معاملے کو نہ جاننے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ وحی کے انتظار کی وجہ سے تھی کیونکہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے علم کی بناء پر اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی عِصمَت کی خبر دیتے تو منافق کہتے کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اہلِ بیت کی طرف داری کی۔ اسی لئے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ بھی خاموش رہے بلکہ خود اُمُّ المؤمنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا نے بھی لوگوں  سے نہ کہا کہ میں  بے قصور ہوں ۔ حالانکہ انہیں  تو اپنی پاکدامنی یقین کے ساتھ معلوم تھی۔