banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 36 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗؕ-قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖؕ-اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ(36)

ترجمہ: کنزالایمان اور جن کو ہم نے کتاب دی وہ اس پر خوش ہوتے جو تمہاری طرف اترا اور ان گروہوں میں کچھ وہ ہیں کہ اس کے بعض سے منکر ہیں تم فرماؤ مجھے تو یہی حکم ہے کہ اللہ کی بندگی کروں اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے پھرنا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس پر خوش ہوتے جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ان گروہوں میں کچھ وہ ہیں جو اس قرآن کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں ۔تم فرماؤ :مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں ، میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے پھرنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ:اور جنہیں  ہم نے کتاب دی۔} حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں  کتاب سے مراد قرآنِ پاک اور جنہیں  کتاب دی گئی ان سے مراد صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ قرآن نازل ہونے پر خوش ہونے سے مراد یہ ہے کہ قرآن نازل ہونے سے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے سے متعلق مزید احکام نازل ہوتے ہیں  جس کی وجہ سے انہیں  خوشی ہوتی ہے۔ اَحزاب سے یہودیوں ، عیسائیوں  اور مشرکین کے وہ گروہ مراد ہیں  جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عداوت میں  سرشار ہیں  اور اُنہوں  نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرچڑھائیاں  کی ہیں  ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ کتاب سے مراد تورات اور انجیل ہے اور جنہیں  کتاب دی گئی ان سے مراد وہ یہودی اور عیسائی ہیں  جو اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ حضرت عبداللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ اور حَبشہ و نَجران کے عیسائی۔ قرآن پاک نازل ہونے پر یہ ا س لئے خوش ہوتے کہ یہ قرآن پاک پر ایمان لائے اور انہوں  نے اس کی تصدیق کی۔ احزاب سے ایمان لانے والوں  کے علاوہ بقیہ یہودی ، عیسائی اور وہ تما م مشرکین مراد ہیں  جو قرآن کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں ۔ یہودیوں  اور عیسائیوں  کو قرآن پاک کے بعض حصے کا انکار کرنے والاا س لئے کہا گیا کہ یہ قرآن پاک کے ان واقعات اور بعض احکام کو مانتے تھے جوابھی تک ان کی کتابوں  میں  بھی موجود تھے البتہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت سے متعلق جن اَحکام کو انہوں  نے تبدیل کر دیا تھا ان کا انکار کرتے تھے جبکہ مشرکین کو قرآن پاک کے بعض حصے کا انکار کرنے والا اس لئے کہا گیا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کو مانتے تھے اور رحمٰن کا انکار کرتے تھے جیساکہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر انہوں  نے کہا تھا کہ ہم رحمٰن کو نہیں  جانتے ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۶۸-۶۹، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۵۹، ملتقطاً)