Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rum ≫ ayat 25 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ بِاَمْرِهٖؕ-ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ﳓ مِّنَ الْاَرْضِ اِذَاۤ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ(25)وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ(26)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں سے ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خارجی کائنات کے ان اوصاف سے اپنی قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا جو جدا نہیں ہوتے ۔اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کی وحدانیّت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ قیامت آنے تک آسمان و زمین کا اسی ہَیئت پر قائم رہنا اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادے سے ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمان اور زمین بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں ۔یہ معنی حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے منقول ہے۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۹۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۲۵، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۶۲، ملتقطاً)
آسمان و زمین کا ا س طرح قائم ہونااس بات کی دلیل ہے کہ انہیں قائم کرنے والا کوئی ایک ہے اور وہ اسباب سے بے نیاز ہے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کے حکم سے یہ دونوں قائم ہیں ۔
{ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ﳓ مِّنَ الْاَرْضِ: پھر جب تمہیں زمین سے ایک ند افرمائے گا۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب تمہیں قبروں سے ایک ندا فرمائے گا تواسی وقت تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی قبروں سے زندہ ہو کر نکل پڑو گے ۔
ندا فرمانے اور قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کی صورت:
ندا فرمانے اور قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کی صورت یہ ہو گی کہ حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام قبر والوں کو اُٹھانے کے لئے (دوسری بار) صور پھونکیں گے اور کہیں گے کہ اے قبر والو! کھڑے ہو جاؤ، تو اَوّلین وآخرین میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو نہ اُٹھے۔(جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۴۲، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۹۰۶، ملتقطاً)
جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
’’وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ‘‘(زمر:۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورصور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر دوسری مرتبہ اس میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔
اور فرماتا ہے کہ
’’وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ‘‘(یٰس:۵۱)
ترجمہ کنزُالعِرفان: اور صورمیں پھونک ماری جائے گی تو اسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔
اور صور کے بارے میں فرماتا ہے:
’’اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ‘‘(یٰس:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ تو صرف ایک چیخ ہوگی تو اسی وقت وہ سب کے سب ہمارے حضور حاضر کردئیے جائیں گے۔
اور فرماتا ہے:
’’فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌۙ(۱۳) فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ‘‘(النازعات:۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو وہ (پھونک) تو ایک جھڑکنا ہی ہے۔ تو فوراً وہ کھلے میدان میں آپڑے ہوں گے۔
{وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور اسی کی ملکیت میں ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔} یعنی آسمانوں اورزمین میں موجود ہر چیز کا حقیقی مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس ملکیت میں کو ئی دوسرا کسی طرح بھی اس کا شریک نہیں اور ان میں موجود ہر چیز اللہ تعالیٰ کے زیرِ حکم ہے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۲۶)