banner image

Home ur Surah Ar Rum ayat 4 Translation Tafsir

اَلرُّوْم

Ar Rum

HR Background

فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَ(3)فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۬ؕ-لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُؕ-وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ(4)بِنَصْرِ اللّٰهِؕ-یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(5)

ترجمہ: کنزالایمان پاس کی زمین میں اور اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے۔ چند برس میں حکم الله ہی کا ہے آگے اور پیچھے اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے۔ الله کی مدد سے وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہے اور وہی ہے عزت والا مہربان۔ ترجمہ: کنزالعرفان قریب کی زمین میں اور وہ اپنی شکست کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند سالوں میں ۔ پہلے اور بعدحکم الله ہی کا ہے اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے۔ الله کی مدد سے۔وہ جس کی چاہے مدد کرتا ہے اور وہی غالب، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ: قریب کی زمین میں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے ابتدائی حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ شام کی اس سرزمین میں  رومی مغلوب ہوگئے جو فارس سے قریب تر ہے اور رومی اپنی شکست کے بعد عنقریب چند سالوں  میں  ایرانیوں  پرغالب آجائیں  گے جن کی حد 9 سال ہے۔مشہور روایت کے مطابق رومیوں  کے مغلوب ہونے کے سات سال بعد ہی رومی ایرانیوں  پر غالب آ گئے تھے ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۳ / ۴۵۸، تفسیر قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۴، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)

رومیوں  کے غالب آنے کی مدت مُبْہَم رکھنے کی حکمت:

            یہاں  آیت میں  رومیوں  کے غالب آنے کی مُعَیَّن مدت ذکرنہیں  کی گئی،اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’آیت میں  رومیوں  کے غالب آنے کی مدت کو ا س لئے مُبْہَم رکھا گیا تاکہ کفار ہر وقت رعب میں  رہیں  اور ان کے دلوں  میں  خوف بیٹھا رہے۔( صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۵۷۵)

حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رومیوں  کے غالب آنے کی مدت معلوم تھی:

            یاد رہے کہ آیت میں  رومیوں  کے غالب آنے کی مُعَیَّن مدت ذکر نہ کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں  کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی اس مدت کا علم نہیں  دیاگیا تھا ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہ مدت بتا دی گئی تھی البتہ اسے ظاہر کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے اسے ظاہر نہیں  فرمایا تھا، جیسا کہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے رومیوں  کے غالب آنے کا سال، مہینہ، دن اور وقت بھی اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا تھا البتہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۹ / ۸۰)

{لِلّٰهِ الْاَمْرُ: اللہ ہی کا حکم ہے۔} یعنی رومیوں  کے غلبہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہی کا حکم چل رہا ہے۔

مراد یہ ہے کہ پہلے فارس والوں  کا غلبہ ہونا اور دوبارہ رومیوں  کا غالب ہوجانا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم ،ارادے اوراس کی قضا و قدر سے ہے کیونکہ جنگ میں  جو مغلوب ہو جائے تو وہ کمزور ہو جاتا ہے اور کمزوری کے بعد دوبارہ غالب آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا غلبہ اس کی اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر نہیں  کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ پہلی بار ہی مغلوب نہ ہوتا ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۴۵۸، صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۵۷۵، ملتقطاً)

{وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ: اور اس دن ایمان والے خوش ہوں  گے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کے ابتدائی حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رومی ایرانیوں  پر غالب آئیں  گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے غلبے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو گا تو اس دن ایمان والے اللہ تعالیٰ کی مدد سے خوش ہوں  گے کہ اُس نے کتابیوں  کو غیر کتابیوں  پر غلبہ دیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں  نے کفار کو رومیوں  کے غالب آنے کی جو خبر دی تھی وہ سچی ثابت ہوئی ۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق جب بدر کے دن مسلمان مشرکوں  پر غالب ہوئے تو انہیں  خوشی ہوئی اور اسی دن رومیوں  کے غالب آنے کی خبر ملنے پر بھی مسلمان خوش ہوئے،اور ایک روایت کے مطابق صلحِ حُدَیْبِیَہ کے موقع پر رومی ایرانیوں  پر غالب آئے اور بیعت ِرضوان کے دن جب مسلمانوں  کو اس کی خبر ملی تو وہ خوش ہوئے۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۹۰۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۳ / ۴۵۸-۴۵۹، تفسیر قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۶، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)