banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 102 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(90)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ(91)وَ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ(92)مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-هَلْ یَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ یَنْتَصِرُوْنَﭤ(93)فَكُبْكِبُوْا فِیْهَا هُمْ وَ الْغَاوٗنَ(94)وَ جُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَﭤ(95)قَالُوْا وَ هُمْ فِیْهَا یَخْتَصِمُوْنَ(96)تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(97)اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(98)وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ(99)فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ(100)وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ(101)فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(102)

ترجمہ: کنزالایمان اور قریب لائی جائے گی جنت پرہیزگاروں کے لیے۔ اور ظاہر کی جائے گی دوزخ گمراہوں کے لیے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم پوجتے تھے۔ اللہ کے سوا کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا بدلہ لیں گے۔ تو اوندھا دئیے گئے جہنم میں وہ اور سب گمراہ۔ اور ابلیس کے لشکر سارے۔ کہیں گے اور وہ اس میں باہم جھگڑتے ہوں گے۔ خدا کی قسم بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ جب کہ تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔ اور ہمیں نہ بہکایا مگر مجرموں نے۔ تو اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں ۔ اور نہ کوئی غم خوار دوست۔ تو کسی طرح ہمیں پھر جانا ہوتا کہ ہم مسلمان ہوتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اورجنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔ اور دوزخ گمراہوں کے لیے ظاہر کردی جائے گی۔ اور ان سے کہا جائے گا:وہ (بت) کہاں ہیں جن کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے تھے؟ کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا کیا وہ بدلہ لے سکتے ہیں ؟ توانہیں اور گمراہوں کواور ابلیس کے سارے لشکروں کو جہنم میں اوندھے کردیا جائے گا۔ خدا کی قسم، بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ جب ہم تمہیں تمام جہانوں کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے۔ اور ہمیں مجرموں نے ہی گمراہ کیا۔ تو اب ہمارے لئے کوئی سفارشی نہیں ۔ اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔ تو اگرکسی طرح ہمارے لئے ایک مرتبہ لوٹ کر جانا ہوتا تو ہم مسلمان ہوجاتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ: اور جنت قریب لائی جائے گی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعا مانگنے کے بعداس دن کے کچھ اوصاف بیان فرمائے جن کاذکر اس آیت اور اس کے بعد والی 12آیات میں  ہے،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

(1)… قیامت کے دن جنت سعادت مندوں  کے مقام سے قریب کر دی جائے گی، وہ جنت کی طرف دیکھیں  گے اور اس میں  موجود طرح طرح کی عظیم الشّان نعمتوں  کا مشاہدہ کریں  گے اور اس لئے خوش ہوں  گے کہ انہیں  اس میں  جمع کیا جائے گا، جبکہ حق راستے سے گمراہ ہوجانے والے بدبختوں  پر جہنم ظاہر کر دی جائے گی، وہ اس میں  موجود طرح طرح کے ہَولناک اَحوال کو دیکھیں  گے اور انہیں  اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ اب انہیں  جہنم میں  ڈال دیا جائے گا اور وہ کسی صورت اس سے چھٹکارا نہ پا سکیں  گے۔ اللہ تعالٰی ایسا اس لئے فرمائے گا کہ ایمان والوں  کو جلد خوشی نصیب ہو اور کافروں  کوعظیم غم ملے۔

(2)…کافروں  کو ان کے کفر و شرک پر ڈانٹتے ہوئے سختی سے کہا جائے گا کہ تمہارے وہ معبود کہا ں  ہیں  جن کی دنیا میں  تم اللہ تعالٰی کے علاوہ عبادت کیا کرتے تھے اور ان کے بارے میں  یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ تمہاری شفاعت کریں  گے؟ کیا وہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے بچا کر تمہاری مدد کریں  گے یا وہ اپنے دوزخ میں  ڈالے جانے کابدلہ لے سکتے ہیں ؟ سن لو! وہ ہر گز ایسا نہیں  کر سکتے۔

(3)…بت اور ان کے پجاری اور ابلیس کے سارے لشکر سب اوندھے کرکے جہنم میں  ڈال دیئے جائیں  گے۔ یاد رہے کہ بت جہنم میں  عذاب پانے کے لئے نہیں  بلکہ اپنے پجاریوں  کو عذاب دینے کے لئے ڈالے جائیں  گے اور ابلیس کے لشکروں  سے مراد اس کی پیروی کرنے والے ہیں  چاہے وہ جن ہوں  یا انسان اوربعض مفسرین نے کہا ہے کہ ابلیس کے لشکروں  سے اس کی ذُرِّیَّت مراد ہے۔

(4)…جب ان گمراہوں  کو جہنم میں  ڈال دیا جائے گا تو وہ جہنم میں  اپنے جھوٹے معبودوں  سے جھگڑتے ہوئے کہیں  گے ’’خدا کی قسم، بیشک ہم اس وقت کھلی گمراہی میں  تھے جب ہم تمہیں  عبادت کا مستحق ہونے میں  تمام جہانوں  کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے حالانکہ تم اس کی ایک ادنیٰ، کمتر ین اور انتہائی عاجزمخلوق تھے اور ہمیں  مجرموں  نے ہی گمراہ کیا اور اب یہ حال ہے کہ ہمارے لئے کوئی سفارشی نہیں  جیسے کہ مومنین کے لئے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیائ، فرشتے اور مومنین شفاعت کرنے والے ہیں ، اور نہ ہی ایمان والوں  کی طرح ہمارا کوئی غم خوار دوست ہے جو اس مشکل ترین وقت میں  ہمارے کام آئے، پس اگرکسی طرح ہمیں  ایک مرتبہ دنیا کی طرف لوٹ کر جانا نصیب ہو جائے تو ہم ضرور مسلمان ہو جائیں  گے۔( تفسیرکبیر،الشعراء،تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۸ / ۵۱۸-۵۱۹، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۳ / ۳۹۰-۳۹۱،ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۴ / ۱۶۹-۱۷۱، ملتقطاً)

{اَلْمُجْرِمُوْنَ: مجرموں ۔} مجرموں  سے مراد وہ ہیں  جنہوں  نے بت پرستی کی دعوت دی یا وہ پہلے لوگ مراد ہیں  جن کی ان گمراہوں  نے پیروی کی یا ان سے ابلیس اور اس کی ذریت مراد ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۸۲۴)

{وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ: اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔} کفار یہ بات اس وقت کہیں  گے جب دیکھیں  گے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ، فرشتے اور صالحین ایمان داروں  کی شفاعت کررہے ہیں  اور ان کی دوستیاں  کام آرہی ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۹۰)

قیامت کے دن پرہیزگارمسلمانوں  کی دوستی مسلمان کے کام آئے گی:

            معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک،صالح اور پرہیز گار مسلمانوں  کی دوستی مسلمانوں  کے کام آئے گی اور وہ قیامت کے انتہائی سخت ہولناک دن میں  مسلمانوں  کی غم خواری اور شفاعت کریں  گے۔اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :

’’اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ‘‘(الزخرف:۶۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پرہیز گاروں  کے علاوہ اس دنگہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں  گے۔

            حضرت جابر بن عبداللہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاکہ جنتی کہے گا: میرے فلاں  دوست کا کیا حال ہے؟ اور وہ دوست گناہوں  کی وجہ سے جہنم میں  ہوگا۔اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ اس کے دوست کو نکالو اور جنت میں  داخل کردو تو جو لوگ جہنم میں  باقی رہ جائیں  گے وہ یہ کہیں  گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں  ہے اور نہ کوئی غم خوار دوست۔( تفسیر بغوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۳۴)

             حضرت حسن بصری  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ایماندار دوست بڑھاؤ کیونکہ وہ روزِ قیامت شفاعت کریں  گے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۹۱)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار مسلمانوں  کو اپنا دوست بنائے اور فاسق و فاجر لوگوں  کی دوستی سے بچے۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)