banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 207 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَ(205)ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ(206)مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَﭤ(207)

ترجمہ: کنزالایمان بھلا دیکھو تو اگر کچھ برس ہم انہیں برتنے دیں ۔ پھر آئے ان پر وہ جس کا وہ وعدہ دئیے جاتے ہیں ۔ تو کیا کام آئے گا ان کے وہ جو برتتے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بھلا دیکھو توکہ اگر ہم کچھ سال انہیں فائدہ اٹھانے دیں ۔ پھر ان پر وہ (عذاب) آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تو کیا وہ سامان ان کے کام آئے گا جس سے انہیں فائدہ اٹھانے (کا موقع) دیا گیا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَرَءَیْتَ: بھلا دیکھو تو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا معنی یہ ہے کہ کفار کا عذاب نازل ہونے کی جلدی مچانے کا ایک سبب ان کا یہ عقیدہ ہے کہ انہیں کوئی عذاب نہیں ہو گا اور وہ ایک طویل عرصے تک امن و سلامتی کے ساتھ دنیا سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ان کے عقیدے کے مطابق اگر انہیں لمبے عرصے تک دنیا سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے، ا س کے بعد ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کی لمبی عمر اور عیش و عشرت انہیں کیا فائدہ دے گی۔دنیا کی زندگانی اور اس کا عیش خواہ طویل بھی ہو لیکن نہ وہ عذاب کو دور کرسکے گا اورنہ اس کی شدت کم کرسکے گا۔(مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ:۲۰۵-۲۰۷،ص۸۳۲-۸۳۳، خازن،الشعراء،تحت الآیۃ: ۲۰۵-۲۰۷، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)

 دنیا کا عیش و عشرت اللہ تعالٰی کا عذاب دور نہیں  کر سکتا:

ان آیات میں اگرچہ کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ دنیا کی طویل زندگی اور عیش و عشرت کی بہتات ان سے اللہ تعالٰی کا عذاب دور کر سکے گی اور نہ ان سے عذاب کی شدت میں  کوئی کمی کر سکے گی، لیکن ان آیات سے ان مسلمانوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہئے جو دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول میں تو مگن ہیں لیکن اللہ تعالٰی کی عبادت، اس کی یاد اور اس کے ذکر سے غافل ہیں ۔انہیں ڈر جانا چاہئے کہ دنیا کی محبت اور اللہ تعالٰی کی اطاعت اور عبادت سے غفلت کہیں ان کی بھی آخرت تباہ نہ کر دے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠‘‘( التکاثر:۱۔۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔ یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔ بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔ پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔

            اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آدمی اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے لہٰذا فنا ہونے والی پر باقی رہنے والی کو ترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)

حضرت یحیٰ بن معاذ  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’لوگوں میں سب سے زیادہ غافل شخص وہ ہے جو اپنی فانی زندگی پر مغرور رہا،اپنی من پسند چیزوں کی لذت میں کھویا رہااور اپنی عادتوں کے مطابق زندگی بسر کرتا رہا، حالانکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ’’اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵) ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بھلا دیکھو توکہ اگر ہم کچھ سال انہیں فائدہ اٹھانے دیں ۔ پھر ان پر وہ (عذاب) آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تو کیا وہ سامان ان کے کام آئےگا جس سے انہیں  فائدہ اٹھانے (کا موقع) دیا گیا تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۷، ص۸۳۳)

اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور دنیا کی بجائے اپنی آخرت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔