banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 216 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ(214)وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(215)فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(216)

ترجمہ: کنزالایمان اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو مسلمانوں کے لیے۔ تو اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو فرمادو میں تمہارے کاموں سے بے علاقہ ہوں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اے محبوب!اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ اور اپنے پیروکار مسلمانوں کے لیے اپنی رحمت کابازو بچھاؤ۔ پھر اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو فرمادو میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْذِرْ: اور اے محبوب! ڈراؤ۔} ا س سے پہلی آیات میں  نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلیاں  دی گئیں ، پھر آپ کی نبوت پر دلائل قائم کئے گئے، پھر منکرین کے سوالات ذکر کر کے ان کے جوابات دئیے گئے،اب یہاں  سے چند وہ اُمور بیان کئے جا رہے ہیں  جن کا تعلق اسلام کی تبلیغ اور رسالت کے ساتھ ہے۔(تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۴، ۸ / ۵۳۶)

قریبی رشتہ داروں  کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرانے کا حکم:

ابتداء میں  دین ِاسلام کی دعوت پوشیدہ طور پر جاری تھی، پھراس آیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قریبی رشتہ داروں  کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریبی رشتہ دار بنی ہاشم اور بنی مُطَّلِب ہیں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں  اعلانیہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور خدا کا خوف دلایا۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۴، ص۳۱۶)

حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’جب یہ آیت ِکریمہ نازل ہو ئی تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوہِ صفا پر چڑھے اور آپ نے آواز دی ’’اے بنی فہر،اے بنی عدی، قریش کی شاخو!یہاں  تک کہ تمام لوگ جمع ہو گئے اور جو خود نہ جا سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تاکہ آکر بتائے کہ بات کیا ہے۔ابو لہب بھی آیا اور سارے قریش آئے۔ (جب سب جمع ہو گئے تو) آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اگر میں  آپ لوگوں  سے کہوں  کہ وادی کے اس طرف ایک لشکر ِجَرّار ہے جو آپ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا آپ مجھے سچا جانو گے؟سب نے کہا :ہاں ! کیونکہ ہم نے آپ سے ہمیشہ سچ بولنا ہی سنا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  آپ لوگوں  کو قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں  جو سب کے سامنے ہے۔یہ سن کر ابو لہب بکواس کرتے ہوئے کہنے لگا’’ کیا ہمیں  اسی لئے جمع کیا ہے۔اس وقت یہ سورت نازل ہوئی:

’’ تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ(۱) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ابو لہب کے دونوں  ہاتھ تباہ ہوجائیں  اور وہ تباہ ہوہی گیا۔ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء، باب وانذر عشیرتک الاقربین۔۔۔الخ، ۳ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۷۷۰)

{وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ: اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ۔} اس آیت ا ور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو ڈر سنائیں  ا س کے بعدجو لوگ صدق و اِخلاص کے ساتھ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں  خواہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رشتہ داری رکھتے ہوں  یا نہ رکھتے ہوں ، ان پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لطف و کرم فرمائیں  اور جو لوگ آپ کا حکم نہ مانیں  تو آپ ان سے اور ان کے اعمال سے بیزاری کا اظہار کر دیں۔(خازن،الشعراء،تحت الآیۃ:۲۱۵-۲۱۶،۳ / ۳۹۷-۳۹۸، مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ: ۲۱۵-۲۱۶، ص۸۳۴، ملتقطاً)