Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shura ≫ ayat 25 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(25)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ
یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ: اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے۔} اس آیت
میں فرمایا گیا کہ جو لوگ اپنے کفر اور بد اعمالیوں سے توبہ کر
لیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ
قبول فرما لے گا کیونکہ اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہر گناہگار کی توبہ قبول فرماتا ہے
اگرچہ ا س کا گناہ کتنا ہی بڑا ہو اور اس توبہ کی برکت سے اس کے گناہوں سے
در گزر فرماتا اور اسے معاف فرما دیتا ہے اوراے لوگو! جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو وہ تمہارے نیک اعمال پر
تمہیں ثواب اور برے اعمال پر سزا دے گا۔
توبہ کرنے کی
ترغیب:
یاد رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت اور فضل ہے کہ وہ اپنے
بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور ان کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اوراس
آیت میں توبہ کی قبولیّت کا مُژدہ سنا کر گناہ کرنے والوں کو اپنے
گناہوں سے توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد
فرمایا: ’’اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا
اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ
وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ‘‘(توبہ:۱۰۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود
صدقات (اپنے دستِ قدرت
میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ا س سے بھی زیادہ راضی ہوتا ہے
جیسے کوئی آدمی پُرخَطر منزل پر ٹھہرے اور اس کے پاس سواری ہو جس کے اوپر کھانے
پینے کی چیزیں ہوں چنانچہ وہ اپنا سر رکھ کر سوجاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے
تو ا س کی سواری کہیں جاچکی ہوتی ہے،پھر گرمی اور پیاس کی شدت اسے تڑپاتی ہے
یا جو اللہ تعالیٰ چاہے(اس کے ساتھ ہوتا ہے)۔پھراس نے کہا میں
اپنی جگہ کی طرف لوٹ جاتا ہوں چنانچہ وہ لوٹ آتا اور پھر سو جاتا ہے،جب(بیدار ہو کر) سر اٹھاتا ہے تو ا س کی
سواری پاس ہوتی ہے(تو
وہ اس پر خوش ہوتا ہے)۔( بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴ /
۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۸)
اور مسلمانوں کو
سچی توبہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ
یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ
تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ‘‘(تحریم:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی
طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب
تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اور تمہیں ان باغوں میں لے
جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے
کہ اگر اس سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ
کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے ،علما ء فرماتے ہیں کہ ہر ایک گناہ سے توبہ واجب
ہے اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی بدی اور معصِیَت سے باز آجائے اور جو گناہ اس
سے صادر ہوا اس پر نادم ہو اور ہمیشہ گناہ سے بچے رہنے کا پختہ ارادہ کرے اور اگر
گناہ میں کسی بندے کی حق تَلفی بھی تھی تو اس حق سے شرعی طریقے سے بَریٔ
الذِّمہ ہوجائے۔( خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۹۶)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’سچی
توبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ نفیس شی ٔبنائی ہے کہ ہر گناہ کے اِزالہ کو کافی ووافی ہے۔
کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک
و کفر (بھی باقی نہیں
رہتے)۔ سچی توبہ کے یہ معنی
ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فوراً چھوڑ دے
اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے ،جو چارۂ کار
اس کی تَلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب،
سَرقہ(یعنی چوری)، رشوت، رِبا (یعنی سود) سے توبہ کی توصرف آئندہ
کے لئے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرورہے
کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے ،جو مال جس جس سے چھینا ، چُرایا، رشوت،
سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں
کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تَصَدُّق کردے اور دل میں
نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تَصَدُّق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں
پھیردوں گا۔(فتاویٰ
رضویہ، کتاب الحظروالاباحۃ، اعتقادیات وسیر، ۲۱ / ۱۲۱-۱۲۲)سود میں لئے گئے
مال کے بارے میں یہ بھی اجازت ہوتی ہے کہ جس سے لیا ہے اسے دینے کی بجائے
ابتداء میں ہی صدقہ کردے یعنی سود دینے والے کو لوٹانا ہی ضروری نہیں
ہوتا۔([1])
{وَ یَعْلَمُ مَا
تَفْعَلُوْنَ: اور جانتا ہے جو کچھ تم
کرتے ہو۔} اگرہم عمل کرتے وقت یہ سوچ لیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہری اور پوشیدہ ہرعمل کو جانتاہے
اور وہ ہمارے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے تو امید ہے کہ کبھی گناہ کرنے کی
ہمت نہ کریں۔ اسی سے متعلق ایک اور مقام پراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
’’اِعْمَلُوْا مَا
شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم جو چاہو کرتے رہو، بیشک اللہتمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’ یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ
الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘(مومن:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اوراسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔
حضرت شعیب حریفیش رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ بندوں سے بے نیاز ہے ،وہ انہیں اپنی اطاعت
اور (توحید و رسالت پر) ایمان لانے کا حکم
دیتا ہے اور ان کے لئے کفر و شرک پر راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ نہ اسے بندوں کی
اطاعت وعبادت نفع پہنچاتی ہے اور نہ ہی ان کی نافرمانی سے کوئی نقصان ہوتا ہے اور
اے گنہگار انسان!اس نے تجھے اپنی فرمانبرداری کا حکم محض اس لئے دیا اور اپنی
نافرمانی سے ا س لئے منع فرماتاہے تاکہ تجھے تیرے یقین کی آنکھ سے اپنی قدرت کا
مشاہدہ کرائے اور تیرے لئے تیرے دین اوردنیا کا معاملہ واضح فرما دے، لہٰذا توہر
وقت اس کی طرف متوجہ رہ، اس سے ڈر اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہ۔ اگر تواسے
نہیں دیکھ سکتا تواس بات پر یقین رکھ کہ وہ تو تجھے یقینا دیکھ رہا ہے۔
نمازوں کی پابندی کر جن کا اس نے تجھے تاکیدی حکم دیا ہے اور سحری کے وقت
عاجزی و اِنکساری سے اس کی بارگاہ میں کھڑا ہو،بے شک وہ تجھ پر اپنی روشن نعمتیں
نچھاور فرمائے گااور تجھے تیرے مقصود تک پہنچا کر تجھ پر احسان فرمائے گا۔ کیااس
نے ماں کے پیٹ کے اندھیروں میں تیری حفاظت نہیں کی اور
وہاں اپنے لطف وکرم سے تجھے خوراک مہیا نہیں کی؟ …کیا اس نے تجھے
کمزور پیدا کر کے، پھر رزق فراہم کرکے تجھے قوی نہیں کیا؟… کیا اس نے تیری
پیدا ئش اور پرورش اچھی طرح نہ کی؟… کیا اس نے تجھے عزت نہیں بخشی اور تیرے
ٹھکانے کو معزز نہیں بنایا؟… کیا تجھے ہدایت اور تقویٰ جیسی عظیم دولت کا
اِلہام نہیں فرمایا؟… کیا تجھے عقل دے کر ایمان کی طرف تیری رہنمائی
نہیں فرمائی ؟…کیااس نے تجھے اپنی نعمتیں عطا نہیں فرمائیں
؟…کیااس نے تجھے اپنی فرمانبرداری کا حکم نہیں دیااوراس کی تاکید نہیں
کی اور کیا اس نے تجھے اپنی نافرمانی سے نہیں ڈرایا اور اس سے منع
نہیں کیا؟… کیا اس نے تجھے ندا دے کر اپنے درِرحمت پر نہیں بلایا؟…کیا
اس نے سحری کے وقت تجھے اپنے مکرم خطاب سے بیدار نہیں کیا اور تجھ سے راز کی
باتیں نہ کیں ؟ …کیا اس نے تجھ سے آخرت میں کامیابی اور جزا کا وعدہ
نہیں فرمایا؟… کیا تو نے سوال کیا اور دعا کی تو اس نے تیرے سوال کا جواب
نہیں دیا اور تیری دعا قبول نہیں کی؟… جب تو نے مصیبتوں
میں مدد مانگی تو کیا اس نے تیری مدد نہیں فرمائی اور تجھے نجات عطا
نہیں کی؟…اور جب تو نے اس کی نافرمانی کی تو کیا اس نے اپنے حِلم سے تیری
پردہ پوشی نہیں فرمائی اور تجھے اپنی رحمت سے نہیں ڈھانپا؟ …کیا تو نے
کئی مرتبہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے غضب کو دعوت
نہیں دی لیکن پھر بھی اس نے تجھے راضی رکھا؟… تو کیا تجھے یہ زیب دیتا ہے کہ
تو گناہوں اور نافرمانیوں سے اس کا سامنا کرے؟ وہ تجھ پر اپنا رزق
کشادہ کرتا ہے لیکن تو اس کی نافرمانی میں اضافہ کرتاہے ۔ تو لوگوں سے
تو چھپ سکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ
سکے گا۔ وہ (تیرے
اعمال پر) گواہ اور تجھے دیکھ
رہا ہے،توکب تک تو اپنی گمراہی اور خواہشات کے سمندر میں غرق رہے گا؟ اگر تو
نجات چاہتا ہے تو ندامت کی کشتی پر سوار ہو جا اور اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچی
توبہ کر کے فائدہ اٹھا۔ اپنے آپ کو اخلاص کے ساحل پر ڈال دے تو وہ تجھے نجات اور
خلاصی عطا فرمادے گا۔( الروض الفائق، المجلس الحادی والاربعون فی مناقب الصالحین
رضی اللّٰہ عنہم اجمعین، ص۲۲۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں
توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
[1] ۔۔۔۔ توبہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’توبہ کی روایات
وحکایات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔