Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shura ≫ ayat 30 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍﭤ(30)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی۔} اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔
مصیبتیں آنے کا ایک سبب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے،اگر یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ (اے لوگو!) تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ’’اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا، دن میں ان پر سورج کو طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز تک نہ سناؤں گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃرضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۲۸۱، الحدیث: ۸۷۱۶)
نیز انہیں چاہئے کہ ان پر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے جو مصیبتیں آ تی ہیں ان میں بے صبری اور شکوہ شکایت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ انہیں اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہوئے صبر و شکر سے کام لیں ،ترغیب کے لئے یہاں گناہوں کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں سے متعلق اور ان مصیبتوں کے گناہوں کا کفارہ ہونے کے بارے میں 5اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الشوری۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۶۳)
(2)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نیک کاموں سے عمر بڑھتی ہے،دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک آدمی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۴۰۲۲)
(3)…حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لکڑی کی خراش لگنا،قدم کا ٹھوکر کھانا اور رگ کا پھڑکنا کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ ا س سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الصبر علی البلایا مطلقاً، ۲ / ۳۰۴، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۶۶۶)
(4)… حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے توا س کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا ا س کی ایک خطا مٹادیتا ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۱، الحدیث: ۴۷(۲۵۷۲))
(5)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے۔( شعب الایمان ، السبعون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع و الامراض ۔۔۔ الخ ، ۷ / ۱۵۸ ، الحدیث: ۹۸۳۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،مشکلات اور مَصائب سے ہماری حفاظت فرمائے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
تناسُخ کے قائلین کا رد:
یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو کہ گناہوں سے پاک ہیں اور چھوٹے بچے جو کہ مُکَلَّف نہیں ہیں ، ان سے اس آیت میں خطاب نہیں کیا گیا ،اوربعض گمراہ فرقے جو تناسُخ یعنی روح کے ایک بدن سے دوسرے بدن میں جانے کے قائل ہیں وہ اس آیت سے اِستدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہو اور ابھی تک چونکہ اُن سے کوئی گناہ ہوا نہیں تو لازم آیا کہ اس زندگی سے پہلے کوئی اور زندگی ہو گی جس میں گناہ ہوئے ہوں گے۔ ان کا اس آیت سے اپنے باطل مذہب پر اِستدلال باطل ہے کیونکہ بچے اس کلام کے مُخاطَب ہی نہیں جیسا کہ عام طور پر تمام خطابات عقلمند اور بالغ حضرات کو ہی ہوتے ہیں ۔( خزائن العرفان، الشوریٰ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۸۹۵، ملخصاً)
نیز بالفرض اگر ان لوگوں کی بات کو ایک لمحے کے لئے تسلیم کرلیں تو ان سے سوال ہے کہ بچوں کو تکالیف تو یقینی طور پر آتی ہی ہیں خواہ وہ ان لوگوں کے عقیدے کے مطابق ساتواں جنم ہو یا پہلا ، تو سوال یہ ہے کہ بچوں کے پہلے جنم میں جو تکلیفیں آتی ہیں وہ کون سے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ؟کیونکہ اس سے پہلے تو کوئی جنم ان کے عقیدے کے مطابق بھی نہیں گزرا ہوتا۔