banner image

Home ur Surah Ash Shura ayat 40 Translation Tafsir

اَلشُّوْرٰی

Ash Shura

HR Background

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(40)

ترجمہ: کنزالایمان اور بُرائی کا بدلہ اُسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے بے شک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ بدلہ جرم کے برابر ہونا چاہیے اوراس میں  زیادتی نہ ہو، اور بدلے کو برائی سے صورۃً مشابہ ہونے کی وجہ سے مجازی طور پربرائی کہا جاتا ہے کیونکہ جس کو وہ بدلہ دیاجائے اسے برا معلوم ہوتا ہے اور بدلے کو برائی کے ساتھ تعبیر کرنے میں  یہ بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے لیکن معاف کر دینا اس سے بہتر ہے۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۰۹۱، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۹۹، ملتقطاً)

{فَمَنْ عَفَا: تو جس نے معاف کیا۔} یعنی جس نے ظالم کو معاف کر دیا اور معافی کے ذریعے اپنے اور ظالم کے مابین معاملے کی اصلا ح کی تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ٔکرم پر ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو پسند نہیں  کرتا جو ظلم کی ابتداء کرتے ہیں  یا بدلہ لینے میں  حد سے تجاوُز کرتے ہیں ۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۰۹۱)

ظالم کو معاف کردینے کے فضائل:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ برائی کے برابر بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن بدلہ نہ لینا اور معاف کر دینا افضل ہے۔ ترغیب کے لئے یہاں  ظالم کو معاف کر دینے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،

(1)…نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن عرش کے درمیانی حصے سے ایک مُنادی اعلان کرے گا’’اے لوگو! سنو،جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ٔکرم پر ہے اسے چاہئے کہ وہ کھڑ اہو جائے،تو اس شخص کے علاوہ اور کوئی کھڑا نہ ہو گا جس نے(دنیا میں ) اپنے بھائی کا جرم معاف کیا تھا۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ ربیعۃ، ۲۱۵۹-الربیع بن یونس بن محمد بن کیسان۔۔۔ الخ، ۱۸ / ۸۷)

(2)… حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں ) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں  تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے اسے معاف کر دیا کرے ،جو اسے محروم کرے اسے عطا کیا کرے اور جو اس سے تعلق توڑے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کیا کرے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ آل عمران، شرح آیۃ: کنتم خیر امّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۲۱۵)

یاد رہے کہ ظالم سے بدلہ لینا ایک فطرتی تقاضا ہے اور شریعت نے ا س کی اجازت بھی دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ کسی نے تھپڑ مارا تو اسے دو تھپڑ مارے جائیں  ،کسی نے سر پھاڑا تو اس کے سر کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی ادھیڑ کر رکھ دیاجائے ،کسی نے بازو توڑا تو اس کے بازو کو جسم سے ہی اتار دیا جائے ،کسی نے ٹانگ توڑی تو اس کی ٹانگ ہی کاٹ دی جائے ،کسی نے قتل کر دیا تو ا س کے پورے خاندان کو ہی موت کی نیند سلا دیا جائے بلکہ جتنا اس پر ظلم ہوا اتنا ہی بدلہ لینے کی اجازت ہے اس سے زیادہ بدلہ ہر گز نہیں  لے سکتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘(مائدہ:۴۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تورات میں  ان پرلازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت (کا قصاص لیا جائے گا) اور تمام زخموں  کا قصاص ہوگاپھر جو دل کی خوشی سے (خود کو) قصاص کے لئے پیش کردے تویہ اس کا کفارہ بن جائے گا اور جواس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔

اس آیت میں  اگرچہ یہود یوں پر قصاص کے اَحکام بیان ہوئے لیکن چونکہ ہمیں  اُن کے ترک کرنے کا حکم نہیں  دیا گیا اس لئے ہم پر بھی یہی اَحکام لازم ہیں ،لہٰذا بدلہ لینے میں  اس کی حد سے ہر گز تجاوُز نہ کیا جائے بلکہ کوشش یہی کی جائے کہ جس نے ظلم کیا اسے معاف کر دیا جائے تاکہ آخرت میں  کثیر اجر و ثواب حاصل ہونیز جہاں  بدلہ لینا بھی ہے وہاں  بھی حاکمِ وقت کے ذریعے لیا جائے گا ، نہ یہ کہ خود ہی قاضی بن گئے اور خود ہی جَلّاد۔