سورۂ طور کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ طور مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی
ہے۔( خازن،
تفسیر سورۃ الطور، ۴ / ۱۸۶)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس میں 2رکوع اور 49آیتیں ہیں ۔
’’طور ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
طور ایک پہاڑ کا نام ہے ،اوراس سورت
کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کی قَسم ارشاد فرمائی ،اس مناسبت سے اس کا
نام’’سورۂ طور‘‘
رکھا گیا۔
سورۂ طور سے متعلق دو اَحادیث:
(1)…اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی
ہیں :میں نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے اپنی بیماری کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’
تم سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف
کر لو،چنانچہ میں نے طواف کیا اورحضور پُر نور صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَیتُ اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
(نماز میں ) سورۂ طور کی تلاوت فرمائی۔( بخاری،
کتاب التفسیر، سورۃ الطور، ۱-باب، ۳ / ۳۳۵، الحدیث: ۴۸۵۳)
(2)…حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں :میں نے مغرب کی نماز میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا،جب آپ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان آیات پر پہنچے:’’ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ
غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ(۳۵) اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ(۳۶)
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ
رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَ
‘‘
ترجمۂ کنزُ العِرفان:
کیا وہ کسی شے کے بغیر ہی پیدا کردئیے گئے ہیں یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں ؟ یا
آسمان اور زمین انہوں نے پیدا کئے ہیں ؟ بلکہ وہ یقین نہیں کرتے۔یا ان کے پاس
تمہارے رب کے خزانے ہیں ؟یا وہ بڑے حاکم ہیں۔‘‘
تو (انہیں سن کر) مجھے
لگا کہ میرا دل (سینے سے نکل کر) اُڑ جائے گا۔( بخاری، کتاب التفسیر،
سورۃ الطور، ۱-باب، ۳ / ۳۳۶، الحدیث: ۴۸۵۴)