banner image

Home ur Surah At Tur ayat 25 Translation Tafsir

اَلطُّوْر

At Tur

HR Background

وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(25)قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِیْۤ اَهْلِنَا مُشْفِقِیْنَ(26)فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ(27)اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ(28)

ترجمہ: کنزالایمان اور اُن میں ایک نے دوسرے کی طرف منہ کیا پوچھتے ہوئے۔ بولے بے شک ہم اس سے پہلے اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے۔ تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لُو کے عذاب سے بچالیا۔ بے شک ہم نے اپنی پہلی زندگی میں اس کی عبادت کی تھی بے شک وہی احسان فرمانے والا مہربان ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اورآپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ کہیں گے: بیشک ہم اس سے پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرنے والے تھے۔ تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں (جہنم کی) سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچالیا۔ بیشک ہم اس سے پہلے (دنیا میں ) اللہ کی عبادت کرتے تھے، بیشک وہی احسان فرمانے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: اورآپس میں  ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں  جنتی ایک دوسرے سے دریافت کریں  گے کہ وہ دنیامیں  کس حال میں  تھے اور کیا عمل کرتے تھے اور کس بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان نعمتوں  سے سرفراز ہوئے، یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرنے کیلئے ہوگا،چنانچہ وہ کہیں  گے کہ بیشک ہم جنت میں  داخل ہونے سے پہلے اپنے گھروں  میں  اللہ تعالیٰ کے خو ف سے اور اس اندیشہ سے سہمے ہوئے تھے کہ نفس و شیطان ایمان میں  خَلَل کا باعث نہ ہوجائیں  اور نیکیوں  کو روک لئے جانے اور بَدیوں  پر گرفت کئے جانے کا بھی اندیشہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحمت اور مغفرت فرما کر احسان کیا اور ہمیں جہنم کی سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچالیا بیشک ہم دنیا میں  اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور اسی سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے تھے ، بیشک وہی احسان فرمانے والا مہربان ہے کہ جب کوئی اس کی عبادت کرے تو اسے ثواب عطا فرماتا ہے اور جب کوئی اس سے دعا کرے تو وہ قبول فرماتا ہے۔( جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۴۳۶، مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۱۱۷۵، ملتقطاً)

جہنم کی سخت گرم ہو اسے پناہ مانگا کریں :

            آیت نمبر27 میں  جہنم کی جس گرم ہوا کے عذاب کا ذکر ہوا ، ا س کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ تعالیٰ دنیا والوں  پر (انگلی کے) ایک پَورے کی مقدار گرم ہو اکے عذاب کو کھول دے تو زمین اور ا س پر موجود تمام چیزیں  جل جائیں  گی۔( در منثور، الطور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۶۳۴)

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جہنم کی اس گرم ہوا سے پناہ طلب کیا کرے ، اس سے متعلق دو واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت مسروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک مرتبہ اس آیت ’’فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘‘ کی تلاوت فرمائی تو (خوف کی وجہ سے یہ) دعا مانگی ’’اَللہمَّ مُنَّ عَلَیْنَا وَقِنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ ، اِنَّکَ اَنْتَ الْبَرُّ الرَّحِیْمْ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر احسان فرما اور ہمیں  گرم ہوا کے عذاب سے بچا لے ،بے شک تو ہی احسان فرمانے والا مہربان ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب صلاۃ التطوّع والامامۃ،فی الرجل یصلّی فیمرّ بآیۃ رحمۃ او آیۃ عذاب،۲ / ۱۱۵،الحدیث:۲)

(2)…حضرت عَباد بن حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں  حضرت اَسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور وہ اس آیت ’’فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘‘ کی تلاوت فرما رہی تھیں ،یہ آیت تلاوت فرمانے کے بعد رک گئیں  اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  (گرم ہوا کے عذاب سے) پناہ مانگنے لگیں  اور دعا کرنے لگیں ۔اس دوران میں  بازار کسی کام سے گیا اور جب اپنا کام پورا کر کے واپس لوٹا تو ا بھی تک حضرت اَسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا (گرم ہوا کے عذاب سے) پناہ مانگ رہی تھیں  اور دعا کر رہی تھیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب صلاۃ التطوّع والامامۃ،فی الرجل یصلّی فیمرّ بآیۃ رحمۃ او آیۃ عذاب،۲ / ۱۱۵،الحدیث:۳)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  بھی اس عذاب سے محفوظ رکھے اور اس سے پناہ مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

سورہِ طور کی آیت نمبر25تا27سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ا ن سے تین باتیں  معلوم ہوئیں  ،

 (1)… جنتیوں  کو اپنی دنیاوی مصروفیات یاد ہوں  گی جن کاوہ تذکرہ کریں  گے ۔

(2)… اللہ تعالیٰ کا خوف تقویٰ کی جڑ ہے کہ نیک عمل کرنے کے باوجود بھی اس سے ڈرے۔

(3)… دنیا کا خوف آخرت کی بے خوفی کا ذریعہ ہے۔