ترجمہ: کنزالایمان
کتاب اتارنا ہے اللہ عزت و حکمت والے کی طرف سے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
کتاب کانازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ: کتاب کانازل فرمانا۔}
اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کتاب قرآنِ پاک کو نازل فرمانا اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے،کسی اور کی طرف سے
ہر گز نہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ اسے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پاس سے بنا لیا
ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب قرآنِ کریم اور خصوصاً اس مبارک سورت کو نازل
کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا تم اسے
غور سے سنو اور ا س کے احکامات پر عمل کرو کہ یہ کتاب عزیز، اسے بھیجنے والا
عزیز،اسے لے کر آنے والا فرشتہ عزیز اور جس پر نازل ہوئی وہ بھی عزیز ہے۔( روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱، ۸ / ۶۸)
زُمَر کا معنی ہے کئی گروہ اور کئی جماعتیں ،اور اس سورت کی آیت
نمبر71میں کفار کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکنے اور آیت نمبر73میں اپنے ربعَزَّوَجَلَّسے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلائے جانے کا ذکر ہے، اس
مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ زُمَر‘‘
رکھا گیا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (اتنے تسلسل سے) روزہ رکھتے حتّٰی کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ افطار نہیں فرمائیں گے
اور کبھی روزہ نہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے اور
آپصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہر رات سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمَر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔(مسند امام احمد، مسند السیّدۃ عائشۃ
رضی اللّٰہ عنہا، ۹ / ۴۳۷، الحدیث: ۲۴۹۶۲)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہتعالیٰ
کے وجود اور اس کی وحدانیّت پر دلائل ذکر کئے گئے ہیں اور قرآنِ پاک
کو اللہتعالیٰ کی وحی ہونا
بتایاگیا ہے اور اس میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ۔
(1) …اس سورت کی ابتداء
میں اللہتعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اخلاص کے ساتھ اللہتعالیٰ کی
عبادت اور اطاعت کرتے رہنے کا حکم دیا اور یہ بیان فرمایا کہ اللہتعالیٰ مخلوق
کی مشابہت سے پاک ہے اور مشرکین کے ان شُبہات کو زائل فرمایا ہے جن کی وجہ سے وہ
بتوں کو معبود اور شفاعت کرنے والا مانتے تھے اور ان کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ
سمجھتے تھے۔
(2) …اللہتعالیٰ
کی وحدانیّت پر زمین و آسمان کی تخلیق،رات اور دن کے آنے جانے،سورج اور چاند کے
مُسَخَّر ہونے اور مختلف مراحل میں انسان کی تخلیق سے اِستدلال فرمایا گیا
اور کفار کی اس عادت پر ان کی مذمت بیا ن کی گئی کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی
ہے تو بتوں کی بجائے اللہتعالیٰ کی
بارگاہ میں گریہ و زاری کرنے لگ جاتے ہیں اور جب انہیں آسانی
ملتی ہے تو وہ اللہتعالیٰ کو بھول جاتے
ہیں ۔
(3)
… مسلمانوں اور کفار کے مابین فرق بیان کیاگیا کہ مسلمان دنیا اور آخرت
دونوں میں سعادت مند ہوں گے اور کفار دونوں جہان
میں بدبخت رہیں گے اور عذاب دیکھ کر تمنا کریں کہ کاش فدیہ دے کر
وہ اس عذاب سے بچ جائیں ۔
(4) …قرآنِ پاک کی عظمت
و شان بیان کی گئی کہ جب مسلمان اس کی آیتیں سنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان
کے دل نرم پڑ جاتے ہیں جبکہ ا س کے برعکس اللہ تعالیٰ
کی وحدانیّت کے دلائل سن کر کفار کے دل مزید سخت ہو جاتے ہیں ۔
(5) …گناہگاروں کو
تسلی دی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے
مایوس نہ ہوں اللہتعالیٰ بخشنے والا مہربان
ہے۔
(6) … اس سورت کے
آخر میں قیامت کے اَحوال بیان کئے گئے اور کافروں اور مسلمانوں کی
جزاء بیان کی گئی ۔
سورۂ زُمَر کی اپنے سے ماقبل سورت ’’صٓ‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ صٓ کے آخر میں قرآنِ مجید کا
یہ وصف بیان کیاگیا کہ قرآن تو سارے جہان والوں کیلئے نصیحت ہی ہے اور سورۂ زُمَر کی ابتداء میں
قرآنِ پاک کا یہ وصف بیان کیاگیا کہ کتاب کانازل فرمانا
اس اللہ کی طرف
سے ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے تو گویا کہ ارشاد فرمایا:قرآن وہ کتاب ہے جو سب جہان والوں کے لئے
ہے اورجسے عزت و حکمت والے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ
صٓ میں حضرت آدمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی تخلیق کا ذکر کیاگیا اور سورۂ زُمَر میں حضرت آدمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی زوجۂ محترمہ حضرت حواءرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکی پیدائش اور ان سے دیگر انسانوں کی پیدائش کا ذکر کیا گیا۔( تناسق الدرر، سورۃ
الزمر، ص۱۱۴-۱۱۵)