Home ≫ ur ≫ Surah Fatir ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًاؕ-فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ: تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا۔} شیطان کی پیروی اور مخالفت کرنے والوں کا حال بیان کرنے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا ہی سمجھتا ہے،کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ، برے کام کو اچھا سمجھنے والا راہ یاب کی طرح کیا ہوسکتا ہے وہ تو اس بدکار سے بدرجہا بدتر ہے جو اپنے خراب عمل کو برا جانتا ہو اور حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہو۔شانِ نزول: یہ آیت ابوجہل وغیرہ مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنے شرک و کفر جیسے قبیح اَفعال کو شیطان کے بہکانے اور اچھا سمجھانے سے اچھا سمجھتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بدعتی اور نفسانی خواہشات پر چلنے والے لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جن میں خوارج وغیرہ داخل ہیں جو اپنی بدمذہبیوں کو اچھا جانتے ہیں ۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ص۹۷۲، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵۳۰، ملتقطاً) اور آج کل کے تمام بدمذہب خواہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے گستاخ ہوں یا صحابہ ٔکرام اور اہلبیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے گستاخ یا ِ تقلید کے منکر یا جَری و بے باک نئے مُتَجَدِّدِین جو کہ اپنی بے دینیوں کو دین اور بد عملیوں کو نیکی سمجھ کر ان پر فخر کرتے ہیں سب انہیں کے زمرہ میں داخل ہیں ۔
ہمارے آج کے معاشرے کا یہ بہت بڑ ااَلمیہ ہے کہ لوگ برے اعمال کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں ،یونہی لوگوں کے سامنے برے اعمال کو اس طرح سجا سنوارکر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے انہیں اچھا سمجھ کر کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جیسے مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کو عورت کا حق جانا جاتا ہے،گلیوں اور بازاروں میں عورتوں کے بے پردہ گھومنے کو فیشن خیال کیا جاتا ہے، اجنبی مَردوں سے بے تَکَلُّف ہو کر باتیں کرنے اور ان سے ہاتھ ملانے کو تہذیب کا نام دیا جاتا ہے،مَردوں کے داڑھی منڈانے کو چہرے کا حسن شمار کیا جاتا ہے، موسیقی کو روح کی غذا سمجھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ: تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے ، لہٰذاغموں کی وجہ سے ان پر آپ کی جان نہ چلی جائے کہ افسوس وہ ایمان نہ لائے اور حق کوقبول کرنے سے محروم رہے ۔مراد یہ کہ آپ اُن کے کفر اورہلاکت کا غم نہ فرمائیں ،بیشک اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کی سز ادے گا۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵۳۰، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۶۴، ملتقطاً)اس طرح کی آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مُبَلِّغ کی تبلیغ کااثر ظاہر نہ ہورہا ہو تو اسے بہت زیادہ غم زدہ نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب پر نظر رکھنی چاہیے۔