banner image

Home ur Surah Fussilat ayat 14 Translation Tafsir

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ (فُصِّلَت)

Fussilat

HR Background

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَﭤ(13)اِذْ جَآءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓىٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(14)

ترجمہ: کنزالایمان پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑ ک سے جیسی کڑ ک عاد اور ثمود پر آئی تھی۔ جب رسول اُن کے آگے پیچھے پھرتے تھے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو بولے ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اُتارتا تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اُسے نہیں مانتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ایک ایسی کڑ ک سے ڈراتا ہوں جیسی کڑک عاد اور ثمود پر آئی تھی۔ جب ان کے آگے اور ان کے پیچھے رسول ان کے پاس آئے (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو انہوں نے کہا:اگرہمارا رب چاہتا تو فرشتو ں کواتارتا تو جس کے ساتھ تمہیں بھیجاگیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنْ اَعْرَضُوْا: پھراگر وہ منہ پھیریں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے بیان کے بعد بھی اگر کفارِ مکہ ایمان لانے سے اِعراض کریں  تو آپ ان سے فرما دیں  ’’میں  تمہیں  ایسے ہَولناک اور ہلاک کر دینے والے عذاب سے ڈراتا ہوں  جیسا قومِ عاد اور ثمود پر اس وقت آیا تھا جب ان قوموں  کے رسول ہر طرف سے ان کے پاس آتے تھے اور ان کی ہدایت کی ہر تدبیر عمل میں  لاتے اور انہیں  ہر طرح نصیحت کرتے اور سمجھاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، تو ان کی قوم کے کافر ان کی نصیحتوں  کے جواب میں  یوں  کہتے تھے کہ اگرہمارا رب چاہتا تو ہماری نصیحت کے لئے تمہاری بجائے فرشتو ں  کواتارتا اور تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو تو جس کے ساتھ تمہیں  بھیجاگیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں ۔ قومِ عاد اور ثمود کایہ کہنا حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تھا جنہوں  نے ایمان کی دعوت دی۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۸ / ۲۴۱-۲۴۲، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۱۰۷۱، ملتقطاً)

سورہِ حٰمٓ اَلسَّجدہ کی آیات سن کر عتبہ بن ربیعہ کا حال:

حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ قریش کی ایک جماعت نے جن میں  ابوجہل وغیرہ سردار بھی تھے یہ تجویز کیا کہ کوئی ایسا شخص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کرنے کے لئے بھیجا جائے جو شعر ، جادو اور، کہا نَت میں  ماہر ہو، چنانچہ ا س کے لئے عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب ہوا اور عتبہ نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوکر کہا : آپ بہتر ہیں  یا ہاشم ؟ آپ بہتر ہیں  یا عبدالمطلب ؟ آپ بہتر ہیں  یا عبداللہ؟ آپ کیوں  ہمارے معبودوں  کو برا کہتے ہیں  ؟ کیوں  ہمارے باپ دادا کو گمراہ بتاتے ہیں ؟ اگر آپ کوحکومت کرنے کا شوق ہو توہم آپ کو بادشاہ مان لیتے ہیں  اور آپ کے جھنڈے لہراتے ہیں  ،اگر عورتوں  کا شوق ہو تو قریش کی جو لڑکیاں  آپ پسند کریں  ان میں  سے دس لڑکیاں  ہم آپ کے نکاح میں  دے دیتے ہیں  ،اگر مال کی خواہش ہو تو ہم آپ کے لئے اتنا مال جمع کردیں  گے جو آپ کی نسلوں  سے بھی بچ رہے گا۔سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ تمام گفتگو خاموشی سے سنتے رہے اور جب عتبہ اپنی تقریر کرکے خاموش ہوا تو حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہی سورت حٰمٓ اَلسَّجدہ پڑھی، جب آپ اس آیت ’’فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ‘‘ پر پہنچے تو عتبہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دہنِ مبارک پر رکھ دیا اور آپ کو رشتے داری اورقرابت کا واسطہ دے کرقسم دلائی اور ڈر کر اپنے گھر بھاگ گیا۔ جب قریش کے لوگ اس کے مکان پر پہنچے تو اس نے تمام واقعہ بیان کرکے کہا کہ خدا کی قسم! محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) جو کہتے ہیں  نہ وہ شعر ہے ، نہ جادو ہے اور نہ کہا نَت کیونکہ میں  ان چیزوں  کو خوب جانتا ہوں  اورمیں  نے ان کا کلام سنا ، جب انہوں  نے آیت ’’فَاِنْ اَعْرَضُوْا‘‘ پڑھی تو میں  نے ان کے دہنِ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں  قسم دی کہ بس کریں  اور تم جانتے ہی ہو کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں  وہی ہوجاتا ہے ، ان کی بات کبھی جھوٹی نہیں  ہوتی ،اس لئے مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں  تم پر عذاب نازل نہ ہونے لگے۔( بغوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۹۷، ۹۸)