banner image

Home ur Surah Fussilat ayat 15 Translation Tafsir

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ (فُصِّلَت)

Fussilat

HR Background

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(15)فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ(16)

ترجمہ: کنزالایمان تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور اور کیا اُنھوں نے نہ جانا کہ اللہ جس نے انہیں بنایا ان سے زیادہ قوی ہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی سخت گرج کی ان کی شامت کے دنوں میں کہ ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں اور بیشک آخرت کے عذاب میں سب سے بڑی رسوائی ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیااور انہوں نے کہا:ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ اور کیا انہوں نے اس بات کو نہ دیکھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ تو ہم نے ان پر(ان کے) منحوس دنوں میں ایک تیزآندھی بھیجی تاکہ دنیا کی زندگی میں ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَمَّا عَادٌ: تو وہ جو عاد تھے۔} اس سے پہلے قومِ عاد کا اِجمالی طور پر ذکر ہوا اور اب یہاں  سے ان کا حال اور انجام کچھ تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہاہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ عاد کے لوگ بڑے طاقتور اورشہ زور تھے لیکن اس کے ساتھ ناحق تکبر بھی کیا کرتے تھے ،جب حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تو انہوں  نے اپنی قوت پر غرور کرتے ہوئے کہا:ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں  اور اگر عذاب آیا توہم اسے اپنی طاقت سے ہٹاسکتے ہیں  ۔اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا یہ لوگ غافل ہیں  اور ان لوگوں  نے ا س بات کا مشاہدہ نہیں  کیا کہ جس اللہ تعالیٰ نے انہیں  پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ قوت والا اور قدرت والا ہے۔  مزید فرمایا گیا کہ قومِ عاد کا حال یہ تھا کہ وہ ہماری اُن آیتوں  کاجان بوجھ کر انکار کرتے تھے جو ہم نے اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمائیں تو ہم نے اُن پر اُن کی شامت کے دنوں  میں  بارش کے بغیر انتہائی ٹھنڈی ایک تیزآندھی بھیجی تاکہ اس کے ذریعے ہم دنیا کی زندگی میں  انہیں  رسوا کر دینے والا عذاب چکھائیں  اور بیشک انہیں  آخرت میں  جوعذاب دیا جائے گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ رُسوا کُن ہے اور وہاں  ان کی کوئی بھی مدد نہ ہوگی۔(خازن،فصلت،تحت الآیۃ:۱۵-۱۶،۴ / ۸۳، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۸ / ۲۴۳-۲۴۴، ملتقطاً)

کوئی دن یا مہینہ حقیقی طور پر منحوس نہیں :

            یہاں  آیت نمبر16میں  منحوس دنوں  کا ذکر ہوا،اس سلسلے میں  یاد رہے کہ کوئی دن یا مہینہ حقیقی طور پر منحوس نہیں  البتہ جس وقت ،دن یا مہینے میں  کوئی گناہ کیا جائے یا اس میں  گناہگاروں  پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو وہ گناہ اور عذاب کے اعتبار سے گناہگارکے حق میں  منحوس ہے، جیسا کہ حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :زمانے کے اجزا ء اپنی اصل حقیقت میں  برابر ہیں  اور ان میں  کوئی فرق نہیں  البتہ ان اجزاء میں  جو نیکی یا گناہ واقع ہو اس میں  فرق کی وجہ سے زمانے کے اَجزاء میں  فرق ہوتا ہے، توجمعہ کا دن نیک کام کرنے والے کے اعتبار سے سعادت مندی کا دن ہے اور گناہ کرنے والے کے اعتبار سے(اس کے حق میں ) منحوس ہے۔(روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۲۴۴)

            اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’مسلمان مطیع (یعنی اطاعت گزار مسلمان)پر کوئی چیز نَحس(یعنی منحوس) نہیں  اور کافروں  کے لئے کچھ سعد(یعنی مبارک)نہیں ، اور مسلمان عاصی کے لئے اس کا اسلام سعد ہے۔ طاعت بشرط ِقبول سعد ہے۔ مَعصِیَت بجائے خود نَحس ہے، اگر رحمت و شفاعت اس کی نحوست سے بچالیں  بلکہ نحوست کو سعادت کردیں (جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:) ’’اُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ‘‘ (ترجمہ: تو ایسوں  کی برائیوں  کو اللہ نیکیوں  سے بدل دے گا۔)(تو یہ الگ بات ہے) بلکہ کبھی گناہ یوں  سعادت ہوجاتا ہے کہ بندہ اس پر خائف وترساں  وتائب وکوشاں  رہتاہے ،وہ دُھل گیا اور بہت سی حَسنات مل گئیں ، باقی کَواکِب (یعنی ستاروں )میں  کوئی سعادت ونحوست نہیں  ،اگر ان کو خود مؤثّر جانے مشرک ہے اور ان سے مدد مانگے تو حرام ہے، ورنہ ان کی رعایت ضرور خلاف ِتوکُّل ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۲۲۳-۲۲۴)

            صدر الشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں :ماہِ صفر کو لوگ منحوسجانتے ہیں  اس میں  شادی بیاہ نہیں  کرتے ،لڑکیوں  کو رخصت نہیں  کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں  اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہِ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں  بہت زیادہ نَحس مانی جاتی ہیں  اور ان کو ’’تیرہ تیزی‘‘کہتے ہیں  یہ سب جہالت کی باتیں  ہیں ۔حدیث میں  فرمایا کہ’’ صفر کوئی چیز نہیں ۔‘‘ یعنی لوگوں  کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے، اسی طرح ذیقعدہ کے مہینہ کو بھی بہت لوگ برا جانتے ہیں  اور اس کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں  یہ بھی غلط ہے اور ہر ماہ میں  3،13،23،8،18،28کو منحوس جانتے ہیں  یہ بھی لَغْوْبات ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، متفرقات، ۳ / ۶۵۹)