banner image

Home ur Surah Fussilat ayat 23 Translation Tafsir

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ (فُصِّلَت)

Fussilat

HR Background

وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(23)

ترجمہ: کنزالایمان اور یہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیا تو اب رہ گئے ہارے ہوؤں میں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور یہ تمہارا وہ گمان تھا جو تم نے اپنے رب پر کیا اسی گمان نے تمہیں ہلاک کردیا تو اب نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ: اور یہ تمہارا وہ گمان تھا جو تم نے اپنے رب پر کیا۔} یعنی اے خدا کے دشمنو! اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جاننے کی نسبت کرنا تمہارا وہ گمان تھا جو تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر کیا ورنہ اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ تمام کُلِّیّات اور جُزئیّات کا علم رکھتا ہے اور ظاہری وباطنی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں  ہے اور اے کافرو! اسی برے گمان نے تمہیں  جہنم میں  ڈال دیا تواس کی وجہ سے اب تم کامل نقصان اٹھانے والوں  میں  سے ہوگئے۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۲۵۰، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۸۴، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کے بارے میں  اچھا گمان رکھنا چاہئے :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں  برا گمان رکھنا کافروں  کا طریقہ ہے اور برا گمان رکھنے والا ان لوگوں  میں  سے ہو گا جو ہلاک ہونے والے اور نقصان اٹھانے والے ہیں  ، برے گمان کی مثال یہ ہے کہ سچی توبہ کر کے بندہ یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف نہیں  فرمائے گا،اپنی اولاد کو اس لئے قتل کر دے کہ پتا نہیں ، اللہ تعالیٰ اسے رزق دیتا ہے یا نہیں  اوردعا کرنے کے بعد یہ گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا بھی ہے یا نہیں  وغیرہ۔ اچھے گمان کی مثال یہ ہے کہ سچی توبہ کے بعد یہ گمان کرناکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے گا اور ا س کے گناہ بخش دے گا، رزق کے اسباب اختیار کرنے کے بعد یہ گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے رزق عطا فرمائے گا اوردعا کرنے کے بعد ا س کی قبولیت کی امید رکھنا وغیرہ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں  برا گمان رکھنے سے بچے اور اچھا گمان رکھے ،ترغیب کے لئے یہاں  اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا اور اچھا گمان رکھنے کے بارے میں  4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا گمان رکھنابڑے کبیرہ گناہوں  میں  سے ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۳۶۴، الحدیث: ۱۴۶۹) (یہ برے گمان کی خاص اَقسام کے اعتبار سے ہے۔)

(2)… حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے کسی شخص کو ہر گز موت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الامر بحسن الظنّ باللّٰہ تعالی عند الموت، ص۱۵۳۸، الحدیث: ۸۱ (۲۸۷۷))

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ایک اچھی عبادت ہے ۔( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۶-باب، ۵ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۶۲۰)

(4)…ایک روایت میں  ہے کہ حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  حضرت یزید بن اسود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی عیادت کے لیے تشریف لائے اوران سے پوچھا:تمہارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیاگمان ہے ؟انہوں نے کہا:جب میں  اپنے گناہوں  کو دیکھتاہوں  تومجھے اپنی ہلاکت قریب نظرآتی ہے لیکن میں  اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتاہوں  ۔حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اللہ اَکْبَر اور گھروالوں  نے بھی کہا، اللہ اَکْبَر۔ حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا:میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سناہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے’’ میں  اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں  وہ میرے متعلق جوچاہے گمان کرے۔(شعب الایمان، الثانی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۶، الحدیث: ۱۰۰۶)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے ساتھ برا گمان رکھنے سے بچنے اور اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

امید اور خوف کے درمیان رہنے میں  ہی سلامتی ہے:

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہی بے خوف ہو جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکل مایوس ہو جائے اور نہ ہی اس کے عذاب اور اس کی سزا سے بے خوف ہو جائے بلکہ اسے چاہئے کہ امید اور خوف کے درمیان رہے کہ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جانے والوں  کے بارے میں  قرآنِ مجید میں  ہے :

’’اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(سورہِ یوسف:۸۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔

            اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو جانے والوں  کے بارے میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں  تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی رحمت سے امید رکھنے اور اپنے عذاب سے خوفزدہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔